اسمارٹ آڈیو بک پلیئر،ایپ ریویو

اسمارٹ آڈیو بک  پلئیر ایک اسمارٹ فون ایپ ہے جس سے آپ اپنےاسمارٹ فون میں موجودصوتی کتب( آڈیو بکس) سننے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس وقت یہ ایپ  اینڈرائڈ  کیلئے ہی دستیاب ہےاور یہ  دو مختلف ورژن میں موجود ہے۔ایک نسخہ مفت جبکہ دوسرا قیمتاً دستیاب ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ مفت ورژن میں بھی تمام فیچرزکو ایک ماہ کیلئے  آزمائشی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ایک ماہ کے بعد نسبتاً ایڈاوانس فیچر جن میں آڈیوایفیکٹس ، ساؤنڈ انہانسر اور کرداروں کا خاکہ لکھنے کی سہولت وغیرہ غیر فعال ہو جائیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ سب فیچر قیمتاً خرید کر استعمال کر سکتے ہیں۔
اسمارٹ آڈیو بک پلئیر سکرین شاٹس

اسمارٹ آڈیو بک پلیئر کا انٹرفیس بہت سادہ ہے ۔پہلی دفعہ انسٹال ہونے کےبعد یہ آپ کی فون میموری اور ایس ڈی کارڈ کو سکین کرتے ہوئے تمام آڈیو فائیلز کو کھنگال کر آپکے سے سامنے لے آئے گا۔لیکن یہ ایپ تمام صوتی میڈیا کوصوتی کتاب ہی سمجھتی ہے۔اس لئے سود مند یہی ہو گا کہ آپ آڈیو کتابیں کسی ایک فولڈر میں اکٹھی کر لیں لیں اور اس کے بعد اسمارٹ آڈیوپلئیر کی پراپرٹینز  ٹیب میں جا کر اسی فولڈر کوسلیکٹ کر لیں جہاں آپ کی کتب موجود ہیں۔یوں ایپ آپ کوصرف آڈیو کتابیں ہی دکھائے گی اوراس میں موسیقی  یا کوئی دوسری آڈیو فائل نہیں موجود ہو گی۔

اس ایپ کومکمل طور پر صوتی کتابیں سننے کیلئے تیار کیا گیا ہے اسلئے صوتی کتب سننے کیلئے اس میں بہت خاص خصوصیات موجود ہیں۔ یہاں موجود کچھ خاص فیچر کا تعارف ضروری ہے۔

آٹو سلیپ

 رات کو سونے سے پہلے اگر آپ ہیندفری سےکتاب سن رہے ہیں اور اسی دوران سو جاتے ہیں تو خدشہ یہی ہے کہ ساری رات کتاب چلتی رہے گی ،اس لئے ایپ میں سلیپ کافیچر ہے جس میں آپ طے کر سکتے ہیں کہ کتنے منٹوں بعد اگر موبائل کو حرکت نہ دی گئی تو ایپ خود بخود بعد ہو جائی گی۔سونے سے پہلے کتابیں سننے والوں کیلئے یہ ایک بہت عمدہ فیچر ہے۔

کرداروں کاخاکہ

بہت سے ناولوں میں  کچھ کردار آپ  کی پسندیدہ لسٹ میں شامل ہو جاتے ہیں،اور بعض اوقات ایک ہی ناول میں بہت سے مختلف کردار موجود ہوتے ہیں۔ہر کردار کو الگ الگ یاد رکھنے  اسکا تعارت اور اپنے پسندیدکرداروں کےمتعلق اپنے احساسات کو فوری طور پر قلم بندکرنے کیلئے آپ کریکٹرفیچراستعمال کر سکتے ہیں۔

بک مارکس

بک مارکے فیچر میں آپ کسی بھی کتاب کے اندر کسی اپنے پسندیدہ جگہ  کو نشانذہ کر کے اسے دوبارہ سن سکتے ہیں۔

اب اگر آپ کے پاس کوئی آڈیوبک موجود ہے تو سفر میں اور فارغ اوقات میں اس ایپ کے ذریعے  کتابیں سننا شروع کر دیں،ایک دفعہ آپ کو آڈیوکتابیں سننےکا چسکا پڑھ گیا تو پھر آپکو موسیقی کی بجائے آپکا شوق بن جائے گا۔لیکن یہاں ایک قباحت ہے کہ اردومیں آڈیو بکس ایک تو ہیں ہی بہت کم اوردوسرا جو دستیاب ہیں ان میں بھی ریکارڈنگ کا معیار اور صداکاری کا معیار بہت کمتر ہے۔ مگر ضیاء محی الدین کی پر وجاہت آواز میں اردو ادب کے کچھ مشہور افسانے اور مضامین  یو ٹیوب پر موجود ہیں ،جن کو آپ ایم پی 3 میں کنورٹ کر کے سن سکتے ہیں۔

(میں نے توابھی تک کوئی معیاری اردو آڈیوبک نہیں سنی ہے۔اگرقارئین میں سے کوئی اردو زبان میں دستیاب معیاری آڈیو بک سے آگاہ ہے تو برائے مہربابی اپنے تبصرے میں مجھے اس سے ضرور آگاہی دیجئے گا۔)

مفت آڈیو بکس

اس لئے اگر آڈیو بکس سننی ہیں تو آپکو انگریزی زبان میں ہی کتابوں کا انتخات کرنا ہوگا۔اس سے ایک تو آپ کا انگریز ی زبان پر عبور بڑھے گا اور دوسرااردو کے مقابلےمیں انگریزی زبان میں مختلف موضوعات پر لاکھوں آڈیوبکس اس وقت دستیاب ہیں۔
Librvox سے آپ تقریباً سینکڑون کلاسیکس میں سے کوئی بھی کتاب مفت ڈواؤن لوڈکرسکتےہیں۔اسکے علاوہ اگر نئی کتابیں سننے کادل کرےتو وہ آڈیبل سے مل تو جائیں گے مگر مہنگی ہوں گی۔

اظہار تشکر

ایک عرصہ پہلے 2012جب محترم شاکر عزیز کے گلوبل سائنس میں شائع مضامین کے  توسط سےاردو بلاگنگ سے آشنائی ہوئی تو بلاگ پڑھنے شروع کیے۔اپنے ایک بلاگ میں شاکر صاحب نے ایک انگریزی آڈیو بک غالباً" ویل آف ٹائم" کا ذکر کیا تھا۔سو بلاگنگ کے بعد انہی کی وساطت سے آڈیو بکس کی دنیا سے بھی روشنائی ہوئی اور میرا تو ان میں ایسا دل لگا ہے کہ اب میرے موبائل میں موسیقی کے بجائے آڈیو بکس کی بھرمار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ محترم عدنان مسعود نے بھی اسی عرصہ میں 52 ہفتے 52 کتابیں کاسلسلہ شروع کیاتھا،وہیں انھوں نے ہنگر گیمزپر اپنا تبصرہ لکھا۔انھیں دنوں اسی فلم پر ہنگرگیمزکی پہلی فلم کی نمائش بھی شروع تھی ، اس لئے انٹرنیٹ پر یہ آڈیوبک مل گئی، اسے سنا توواقعی بہت اچھی لگی اور اس کے بعد پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔آج جب اسمارٹ آڈیو بک پلئیر کے بارے میں  لکھنا چاہاتو سوچا یہی بہتر موقع ہے کہ دونوں حضرات کا شکریہ بھی ادا کر دو ، جن کی بدولت اس مفید اوردلسچب مشغلے  سے روشنائی ہوئی۔

مزید پڑھیے:گوگل میپس اب آفلائن سرچ اور نیویگیشن کے ساتھ

موبائل ورلڈ کانگرس 2016

بارسلونا میں اس وقت موبائل  دنیا کی سب سے بڑی نمائش جاری ہے، جس میں  تقریباً تمام مشہور موبائل ساز ادارے اپنی  جدید مصنوعات  کی رونمائی کر رہے ہیں۔ 21 فرووری سے جاری نمائش میں سیمسنگ کی جانب سےگلیکسی ایس 7 اور گلیکسی ایس 7 ایج متعارف کرائے گئے ، جو کہ تمام افراد کی توجہ کا مرکز ہیں۔اس کے  علاوہ بھی تقریباً تمام بڑی  موبائل کمپنیاں اپنی مصنوعات کے ساتھ صارفین کےدل جیتنے کیلئے موجود ہیں۔موبائل ورلڈ کانگرس 2016 کی کچھ اہم جھلکیاں   یہ ہیں۔
موبائل ورلڈ کانگرس  2016

سیمسنگ گلیکسی ایس 7 اور ایس 7ایج

سیمسنگ گلیکسی ایس بلاشبہ کمپنی کی سب سے اہم  موبائل پروڈکٹ ہے۔پچھلے سال کی طرح اس مرتبہ بھی سیمسنگ نے ایس 7 سیریز کے دوموبائل گلیکسی ایس 7 اور گلیکسی ایس 7 ایج متعارف کرائے ہیں۔لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس دفعہ گلیکسی سیریز میں مائیکروایس ڈی سلاٹ موجود ہے ، پچھلے سال یہ سہولت دستیاب نہیں تھی۔اس کے علاوہ دونوں موبائلوں میں بیٹری کی گنجائش میں اضافے کے ساتھ ساتھ کیمرہ، ریم ، سکرین اور پروسیسر میں بہت ذیادہ بہتری پیدا کی گئی ہے۔اس وجہ سے گلیکسی سیریز  کے یہ موبائل سال کے بہترین موبائلوں میں شمار ہونگے۔
سیمسنگ گلیکسی ایس 7 اور ایس 7 ایج

ایل جی :جی 5

علاوہ جنوبی کوریاہی کی دوسری کمپنی ایل جی نے بھی اپناسب سے بہترین فون جی 5 بھی پیش کیا ہےجو کہ بہت سی اختراعات کی وجہ سے بہت پزیرائی حاصل کر رہا ہے۔جی 5 کے ڈیزائن کو ایل جی نے ازسر نو تیار کیا ہے جو کہ پچھلے تمام جی سیریز کے موبائلوں سے بہت مختلف اور خوبصورت ہے۔یہ جی سیریز کا پہلا مکمل میٹل باڈی موبائل ہے۔
اس کے علاوہ ایل جی جی5  کی سب سے خاص بات ماڈیولر سلاٹ ہے جس کی مدد سے آپ موبائل ایل جی یا کسی تھرڈ پارٹی کی تیار کردہ اضافی پرزہ جات شامل کر سکتے ہیں۔تعارفی طور پر ایل جی نے کیمرہ کنٹرولر ماڈیول اور بہترین معیار کی ساونڈ ریکارڈنگ جیسے ماڈیول شامل ہیں۔
اس کے علاوہ G5 میں  دو کیمرہ لینس موجود ہیں،ایک 16 میگا پکسل نارمل کیمرہ اور دوسرا 8 میگا پکسل کیمرہ سنسر 135ڈگری کے وسیع زاویہ میں تصویر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ جی 5 میں اس دفعہ ہمیشہ آن رہنے والی سکرین بھی شامل ہے۔
ایل جی جی5 کی ماڈیولر سلاٹ

سونی  ایکسپیریا X سیریز

سونی نے اس دفعہ ایکسپریا Z کی بجائے  ایک نئی موبائل سیریز ایکسپیریا X اور XAمتعارف کرائی ہیں۔یہ دونوں اقسام مکمل میٹل باڈی اور اعلی معیار کے کیمرہ سینسر کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ایکسپیریا ایکس میں Z سیریز موبائلوں سے مختلف ڈیزائن میں پیش کی گئی ہے۔ یہ موبائل مکمل میٹل باڈی کے ساتھ کچھ خمدار بھی ہیں تا کہ ہاتھ میں گرفت رکھنا آسان رہے۔
یہ موبائل  فوٹو گرافی کے شوقین حضرات کیلئے خاص طور پر بنایا گیا ہے کیونکہ اس  میں 23 میگاپکسل بیک کیمرہ موجود  ہونےکے ساتھ 13 میگاپکسل فرنٹ کیمرہ بھی موجود ہے۔
ایکسپیریا ایکس سیریز


اس کے علاوہ سونی نے نمائش میں ایکسپریا ائیر نامی وائرلیس ہیڈ سیٹ بھی متعارف کرایا ہے ۔ مصنوعی ذہانت سے لیس معاون کی بدولت ایکسپریا ائیر آپ کے آواز کے تابع ہو گا۔آپ اپنی آواز سے کال ملا نے کے ساتھ انٹرنیٹ سرچ ، ٹیکسٹ میسج  بھی بھیج سکتے ہیں۔

ان تمام بڑے ناموں کے علاوہ اس نمائش میں بہت سی چینی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کے ساتھ موجود ہیں۔ان میں ہواؤے اور زی ٹی ای جیسے نام شامل ہیں لیکن موبائل سازی میں ابھرتی ہوئی چپنی کمپنیاں مثلاً ون پلس ، اوپو ، میزو ، زیامی اور آنر موجود نہیں، یہ کمپنیاں کم قیمت اور معیاری موبائل بنا رہی ہیں اور مغربی منڈیوں میں ان کی مصنوعات سیمسنگ اور سونی کو لئے سخت مقابلہ پیدا کر سکتی ہیں۔

دی ماریشین ؛ مریخ پر اکیلے بے یارو مدد گار خلا نورد کی داستان

دی مارشین اکتوبر 2015 میں نمائش کیلئے پیش کی گئی سائنس فکشن فلم ہے۔ اس فلم میں مریخ پر بھیجے گئے ایک خلائی مشن کو موضوع بنایا گیا ہے،جسے ایک ناگہانی طوفان کی وجہ سے فی الفور ختم کر دیا جاتا ہے۔اس ہنگامی انخلاء کے دوران ایک مریخ نورد 'مارک واٹنی ' ایک حادثے کا شکار ہو کر بے ہوش ہو جاتا ہے اوراسکا باقی ساتھیوں سے ریڈیو  رابطہ بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔طوفان کی سنگینی کی وجہ سے خلائی  ٹیم مارک واٹنی کو مردہ سمجھ کر مریخ پر اکیلا چھوڑ کر واپسی اختیار  کر لیتی ہے۔

دی ماریشین، فلم پوسٹر

فلم کی کچھ کہانی۔۔۔

لیکن ۔۔۔مارک اس حادثے میں شدید زخمی ہو کر  بے ہوش ضرور ہو تا ہے مگر زندگی کی بازی نہیں ہارتا۔ہوش میں آنے کے بعد اسے مریخ جیسے بے آب و گیاہ ،سنسان اور ویران سیارے پر زندہ رہنے کیلئے جدو جہد کرنی پڑھتی ہے۔مگرخاص بات یہ ہے کہ یہ جدوجہد دوسری مصالحہ سائنس  فکش فلموں کی طرح ایک انتہائی ترقی یافتہ ، بھیانک اور انسان دشمن مریخی مخلوق کی بجائے مریخ کے انتہائی شدید ماحول،آکسیجن سے عاری فضا، خوراک کی کمی   اور بنجرزمین کے ساتھ ہوتی ہے۔

ایسا سیارہ جس پر زندگی کیلئے حالات انتہائی غیر موافق ہیں وہاں امید کی واحد صورت زمین سے ناسا(NASA) کے ریسکیو مشن کی آمد ہے۔جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ زمین پر کسی کو مارک کے زندہ نچ کا علم نہیں اور مریخ پر  ترتیب شدہ اگلا خلائی مشن 4 سال ترتیب دیا گیا ہے۔ ان  حالات میں  مارک واٹنی پر یہ بےرحم حقیققت واضح ہوتی ہے کہ مریخ پرمرنے والا پہلا انسان مارک خور ہی  ہوگا۔ لیکن خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے کےبجانے وہ حالات سے لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

سیارہ مریخ پر ناسا کے  ایڈوانس خلائی پروگرام کی بدولت واٹنی کے پاس  رہائش کیلئے ایک جدید خیمہ ، ساتھی عملے کی خلائی سوٹ اور تحقیقی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی مریخی گاڑیاں تو دستیاب ہوتی ہیں  لیکن مریخ پر زندہ رہنے کیلئے  خوراک اور پانی  انتہائی کم مقدارمیں  موجود ہوتے ہیں ۔

یہاں واٹنی کو  مریخی اسٹیشن پر موجود اشیاء کو استعمال کرتے ہوئے  اپنے  لئے آلو اگانا پڑھتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی آلوؤں فصل اور ایک لمبے قیام کیلئے اسے  ہائیڈوجن کو جلا کر پانی بھی حاصل کرنا پڑھتا ہے۔لیکن ان سب کے باوجود  زندہ زمین پر واپسی کیلئے اس کو زمین پر موجود ناسا کی خلائی اڈے سے رابطہ کرنا بہت ضروری  ہوتا ہے اور  وہاں موجود مریخی اڈے سے زمین  رابطے کیلئے کوئی زریعہ موجود نہیں ہوتا۔اس مقصد کیلئے مارک کو کلومیٹر دور موجود ایک مریخی کھوجی "پاتھ فائینڈر" کو تلاش کرنا پڑھتا ہے۔

اسی اثناء میں مریخ  کے گرد گردش کرنے والے مصنوعی سیارچوں سے لی گئی تصویروں کی بدولت ناسا کو بھی مارک کے زندہ  ہونے کا علم ہو جاتا ہے ،لیکن ناسا کے پاس بھی مارک واٹنی کے ساتھ رابطے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہوتا۔ اس کے  بعد  فلم میں ایک طرف  زمین پر مارک کو بچانے اور زندہ کوششون واپس  لانے کیلئے کوششوں کا ذکر ہے تو دوسری طرف مریخ پر مارک کی انتہائی مشکل حالات میں زندہ رہنے کی جدجہد دکھائی گئی ہے۔جبکہ تیسری جانب واٹنی کے ساتھ مشن پر جانے والی ٹیم کی  اسے بچانے کیلئے تگ و دو اور قربانی آپ کو فلم کے اختتام تک سکرین سے نظریں ہٹانے کا موقع نہیں دیتی۔

کچھ ذکر کتاب کا۔۔۔

فلم کی کہانی اینڈی وئیر کے ایک اسی نام سے لکھے گئے ایک ناول سے ماخود ہے اورناول نگار فلم کے سکرپٹ میں بھی شریک لکھاری کی حثیت سے شامل رہے ہیں۔اینڈی وئیر کا یہ ناول "دی ماریشین" انکی آنلائن ویب سائٹ پہ  ایک عرصہ موجودرہا اور اس کو بہت پسند کیا گیا بعد ازاں 2014   میں یہ  کتابی صورت میں شائع ہوا ۔ اصل زندگی کے قریب تر مریخی  کی منظر کشی کی وجہ سے اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی وجہ سے اس کے کہانی کو پردہ سکرین پر پیش کرنے کیلئے چنا گیا۔

فلم کاسٹ اور دیگر عملہ

فلم  میں نا مصائب حالات میں ہار نہ ماننے والے خلانورد' مارک واٹنی' کا کردار مشہور اداکار میٹ ڈیمن نے  نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔اپنی پرفارمنس سے میٹ ڈیمن نے ثابت کیا ہے کہ سرخ سیارے پر  ایک کے  تنہا مگرباہمت اور مستقل مزاج خلا باز کے کردار  کیلئے  ان سے بہتر کوئی اور انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔

فلم کے ڈائکٹر مشہور رڈلی سکاٹ ہیں جوکہ "بلیک ہاک ڈاؤن "، "گلیڈی ایٹر" اور" کنگڈم آف ہیون" جیسی یادگار فلمیں بنا چکے ہیں۔دی ماریشین ان کی بہترین فلموں میں ایک اور شاندار اضافہ ہے۔ اس فلم میں انھوں نے بہت خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف 'سرخ سیارے' یعنی مریخ کے ماحول کو پیش  کیا ہےبلکہ اس کے ساتھ خلائی جہازوں اور راکٹ لانچر کے ذریعےسفر کو حقیقی زندگی کے قریب تر انداز میں پردہ سکرین پر پیش کیا ہے۔

باکس آفس کارکردگی اور پزیرائی

اس فلم کی تیاری پر 108 ملین ڈالر لاگت آئی اور اس کو 2 اکتوبر 2015 میں نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔فلمی شائقین کی طرف سے فلم کو زبردست رسپائس ملا اور دنیا بھر میں اس نے 614 ملین ڈالر کا برنس کیا۔
باکس آفس پر ہٹ ہونے کے  ساتھ فلم ناقدین کو بھی پسند آئی اور اسی وجہ سے آسکر 2016 میں اس فلم کو سات مختلف کیٹیگریز میں ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا جن میں بہترین لیڈ رول، بہترین  بصری اثرات اور سال کی بہترین فلم جیسی اہم شامل ہیں۔

مزید سائنس فکش ریویوز:  1۔ گریوٹی      2۔  انٹرسٹیلر

چھ سادہ طریقوں سے اردو کے فروغ میں حصہ لیں

اردو ہماری قومی زبان ہونے کے ساتھ ملک بھر میں رابطے کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ اس وجہ سے اردو کی ترقی اور ترویج کی ذمہ داری ریاست کے ساتھ ہم شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اردو کو دفتری زبان قرار دینے کے لیے ایک عدالتی حکم نامہ بھی جاری کیا تھا مگر اس پر ابھی تک قابل ذکر کام نہیں ہو سکا۔
دفاتر کے علاوہ انٹرنیٹ پر اردو زبان میں قابل ذکر مواد صرف نیوز ویب سائٹس کی حد تک ہی ہے، یہاں تک کہ حکومت پاکستان کی سرکاری ویب سائٹ بھی اردو میں دستیاب نہیں، جبکہ دنیا کے ہر ملک کی سرکاری ویب سائٹ اس کی قومی زبان میں موجود ہے۔ یہاں ریاست کی بے حسی کا رونا رونے کے بجائے ہمیں کچھ عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک عام شہری کی حثیت سے ہم اردو کے فروغ اور اس کو دیگر عالمی زبانوں کے ہم پلہ بنانے کے لیے باآسانی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کی وجہ سے اردو کا آن لائن فروغ ان چھ طریقوں سے باآسانی ممکن ہے۔ یقیناً بہت سے قاری ان سے واقفیت رکھتے ہوں گے مگر انہیں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

1: اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون میں اردو نصب کریں

اردو کے آن لائن فروغ کے لیے سب سے پہلا قدم اپنے ذاتی کمپیوٹر یا اسمارٹ فون میں اردو کی بورڈ کی انسٹالیشن ہے تاکہ آپ کسی بھی جگہ اردو ٹائپ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
اگر آپ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم استعمال کر رہے ہیں تو ونڈوز 8 اور 10 میں اردو کی سپورٹ پہلے سے موجود ہوتی ہے، آپ نے صرف لینگوئج آپشنز میں جا کر اسے فعال کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ آپ کو مشکل محسوس ہو تو گھبرائیے نہیں، بلکہ انٹرنیٹ سے "پاک اردو انسٹالر" اتار کر نصب کر لیں۔ اس سے آپ کو اردو لکھنے کے لیے 'ان پیج' جیسے سافٹ وئیر کی ضرورت نہیں رہے گی، بلکہ آپ مائیکروسافٹ آفس اور گوگل سرچ بار تک ہر جگہ اردو لکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں فروخت ہونے والے بہت سے موبائل فونز اور آئی فون میں اردو سپورٹ پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ اگر آپ کے اینڈرائیڈ سیٹ میں اردو کی بورڈ موجود نہیں تو ایپ سٹور سے 'ملٹی لنگ کی بورڈ' ڈاؤن لوڈ کر لیں اور پھر اس کے ساتھ اردو زبان کا پلگ ان نصب کرنا ہوگا۔ اس کے بعد آپ اپنے اینڈرائیڈ ہینڈ سیٹ میں بھی ہر جگہ باآسانی اردو لکھ سکتے ہیں۔

2: انٹرنیٹ سرچ اردو میں

اپنے موبائل/کمپیوٹر پر اردو کی بورڈ نصب کرنے کے بعد اس کا سب سے مؤثر استعمال یہ ہوگا کہ آپ گوگل، یاہو یا بنگ، کوئی بھی سرچ انجن استعمال کریں تو سرچ باکس میں رومن کے بجائے اردو زبان استعمال کریں۔ اگر آپ نے پہلے انٹرنیٹ کی تلاش میں اردو استعمال نہیں کی تو سرچ رزلٹس سے ظاہر ہونے والے مواد کی تعداد سے حیرت ضرور ہو گی۔
اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ سرچ رزلٹس اردو میں ہونے کی وجہ سے آپ آسانی سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور دوسرا فائدہ براہ راست اردو کو ہوگا کیونکہ اردو میں جتنی زیادہ سرچ بڑھے گی اتنے ہی زیادہ ادارے اردو میں معلومات مہیا کرنے کی کوشش کریں گے۔

3: پیغامات اور سوشل میڈیا پوسٹیں اردو میں

آجکل اردو داں طبقہ سوشل میڈیا اور ذاتی پیغامات میں رومن اردو کا استعمال کرتا ہے، جس کے لیے کوئی باضابطہ قواعد نہ ہونے کی وجہ سے اردو زبان کا معیار مسلسل زوال پزیر ہے۔ اپنے موبائل/کمپیوٹر پر اردو میں انٹرنیٹ سرچ شروع کرنے کے بعد جیسے ہی آپ اردو ٹائپنگ میں روانی حاصل کریں، اپنی فیس بک اور ٹوئٹر پوسٹس کے ساتھ دوستوں سے پیغامات کے تبادلے میں اردو کا استعمال کریں۔

4: اردو وکی پیڈیا پر لکھیں

فرض کیا کہ آپ نے ہماری پہلی دو گزارشات مان لیں ہیں اور آپ نے انٹرنیٹ پر تلاش اردو میں شروع کر دی ہے، تو پھر نتائج میں آپ کا واسطہ سب سے زیادہ اردو وکی پیڈیا سے پڑے گا۔ اس وقت اگرچہ اردو وکی پیڈیا پر ایک لاکھ سے زیادہ مضامین موجود ہیں، لیکن ان میں سے اکثریت کا معیار وکی پیڈیا پر دوسری عالمی زبانوں میں موجود مضامین کے مقابلے میں بہت کمتر ہے۔
اس لیے آپ اپنے فارغ وقت میں یہاں پر موجود مضامین کی نوک پلک کے ساتھ ان میں موجود مواد میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے وقت کا بہترین مصرف ہوگا اور ساتھ ہی مختلف موضوعات پر آپ کی اپنی معلومات میں بھی بے پناہ اضافے کا باعث بنے گا۔

5: گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد کریں

وکی پیڈیا پر مضامین کے بعد اردو کی ترویج کی سب سے اہم جگہ گوگل ٹرانسلیٹ ہے۔ گوگل ٹرانسلیٹ مشینی ترجمہ کرنے کی ایک ہمہ گیر ویب سائٹ ہے جہاں آپ دنیا کی تمام بڑی زبانوں کا ایک سے دوسری میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اس مشینی ترجمے کے لیے گوگل کو پہلے سے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کی گئی فائلیں درکار ہوتی ہیں۔
یہ ترجمہ شدہ فائلیں جتنی زیادہ ہوں گی اور ترجمے کا معیار جتنا اچھا ہوگا، ان دو زبانوں کے لیے گوگل ٹرانسلیٹ اتنا ہی بہتر ترجمہ کر سکے گا۔ اس لیے اگر آپ اردو کے ساتھ کسی اور زبان مثلاً انگریزی، فارسی، عربی یا ہندی پر عبور رکھتے ہیں تو گلوگل ٹرانسلیٹ پر جائیے اور گوگل ٹرانسلیٹ کمیونٹی کا حصہ بن کر چھوٹے چھوٹے جملے ترجہ کر کے حسبِ توفیق اردو کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالیے۔

6: اپنا اردو بلاگ لکھیں

اگر آپ اردو ٹائپنگ میں روانی رکھتے ہیں اور اپنے خیالات اردو داں طبقے تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سب سے آسان راستہ اردو بلاگ ہے۔ بلاگ ایک آن لائن ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں آپ اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق کسی بھی موضوع پر لکھ سکتے ہیں۔
بلاگ لکھنے کے لیے آپ کو بہت سی مفت ویب سائٹس مل جائیں گی جن میں سب سے مشہور بلاگر ڈاٹ کام اور ورڈ پریس ڈاٹ کام ہیں، جن میں اردو کی مکمل سپورٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں تو حالات حاضرہ یا پاکستانی معاشرے کے بارے میں آن لائن اردو نیوز ویب سائٹس پر بھی بلاگ لکھ سکتے ہیں، جس سے آپ کی تحریر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے گی۔ 

نوٹ: یہ مضمون سب سے پہلے ڈان اردو میں شائع ہوا۔ 

گوگل سیلف ڈرائیونگ کار اب سڑکوں پر آمد کے مزید قریب

ایک عرصہ سے سیلف ڈرائیونگ کاروں کی تیاری اور اس میدان میں مختلف کمپنیوں کی طرف سے ہونے والی پیش رفت خبروں کا حصہ ہے۔ لیکن سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کی سڑکوں پرآمد اور کمرشل دسیتابی کے حوالے سے 'گوگل کار' باقی حریفوں پر بازی لے گئی ہے۔سٹرکوں اور ہائی ویز کے لئے اصول ضوابط تیار کرنے والے امریکی ادراے"بیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی انڈمنسٹریشن" نے گوگل کار کو انسانی ڈرائیور کے ہم پلہ قرار دینے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔اس طرح  گوگل کی بغیر سٹیرنگ وییل اور بریک و سپیڈ پیڈل  سے عاری گوگل کار  کی سڑکوں پر آمد کی راہ ہموار ہو گی۔
گوگل سیلف ڈرائیونگ کار،جس میں سٹیرنگ وہیل اور بریک اور سپیڈ پیڈل موجود نہیں۔

اس سے پہلےقانون کے مطابق کوئی بھی کار بغیر"انسانی  ڈرائیور "کے کسی بھی ہائے وے یا سڑک پرچلنے کی اہل نہیں تھی، مگر امریکی ادارے کےسربراہ کا کہنا ہے کہ  ٹیکنالوجی  میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے اب صورتحال پہلےسے بہت مختلف  ہو چکی ہے۔ اسی لئے ہم مروجہ  قوانین اور معیارات  میں اضافہ و تبدیلیاں کرنے جا رہے ہیں۔ 

مزید پڑھیں:آڈی کی نئی کار 900 کلومیٹر کاسفر بغیر ڈرائیور کےکرنے کو تیار


انکا  مزید کہنا تھا کہ "اگر کسی کار کو ڈرائیو کرنے کیلئے انسانی ڈرائیور کے متبادل کوئی سسٹم نصب ہو تو ہم اسی خودکار سسٹم کو کار کا قانونی ڈرائیور قرار دیں گے۔کیونکہ گاڑی کی باگ دوڑ اس  میں موجود سواری کی بجائے  خود کار سسٹم کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔"

سیلف ڈرائیونگ کاروں کیلئے مثبت پیش رفت

اس پیش رفت کے بعد گوگل اپنی  سیلف ڈرائیونگ کار جس میں روایتی گاڑیوں کے برعکس کوئی بھی سٹیرنگ یابریکنگ و سپیڈ پیڈل نصب نہیں  کو شاہراوں پر لانے سے ایک قدم مزید قریب ہو گیا ہے۔ان تمام قانونی تبدیلیوں کے بعد گوگل کار امریکہ میں رائج وفاقی موٹر گاڑی کے حفاظتی معیارات (Federal Motor Vehicle Safety Standards) کے ٹیسٹ میں شامل ہونے کی اہل ہو جائے گی اور ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد گوگل کار امریکہ بھر کی سڑکوں پر چلنے کیلئے قانونی طور پر منظوری حاصل کر سکے گی۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں بہت سے اداروں کی جانب سے سیلف ڈرائیونگ کاروں کی تیاری  کی کوششیں ایک عرصہ سے جاری ہیں ، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے  جنوری 2016 میں سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کی  سڑکوں پر آمد کے حوالے سے اصول و ضوابط اور حفاظتی معیارات وضع  کرنے کیلئے امریکی حکومت نے 4 ارب ڈالرکی خطیررقم مختص کی تھی۔

 تنقید

بہت سے ناقدین نے سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کو قانونی طور پر ڈرائیونگ کے قابل قرار دینے کیلئے جاری پیش رفت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں سے ایک کیلیفورنیا میں موجو دڈیپارٹمنٹ آف موٹر وئیکلز کے سربراہ بھی شامل ہیں جن کا ماننا ہے کہ "ہر کار میں ایک انسانی ڈرائیور ہر صورت میں موجود ہوتا چاہیے۔"  انکے ردعمل میں  گوگل کا کہنا ہے کہ اس طرح کابیان سیلف ڈرائیونگ گاڑویوں کی قانون سازی  کیلئے پہلے سے ہی مبہم اور غیر واضح  صورتحال کو پیچیدہ کرنے کا باعث بنے گا۔

مزید پڑھیں:نیویارک انٹرنیشنل آٹو شو 2015

وٹس ایپ کی بے پناہ مقبولیت اور کچھ دلچسب حقائق

اگر آپ موبائل پر انٹرنیٹ  استعمال کرتے ہیں اور خاص طور پر اگر اسمارٹ فون کے مالک ہیں  تو لازمی طور  آپ وٹس ایپ کے صارف بھی ہونگے۔وٹس ایپ  نے ایک کراس پلیٹ فارم میسجنگ سروس  کی حثیت سے اپنے سفر کاآغاز کیا اور تقریباً ہر موبائل پلیٹ فارم پر دستیاب ہونے کی وجہ سے یہ آج ہر موبائل صارف کی ضرورت بن گئی ہے۔وٹس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے صرف انٹرنیٹ کنکشن کے زریعے  آپ کسی بھی وٹس ایپ صارف  کے ساتھ ٹیکسٹ میسج، تصاویر ،وڈیوز اور وائس کال کا  فوری تبادلہ کر سکتے ہیں۔یہاں ہم اس انتہائی مقبول انسٹنٹ میسجنگ سروس کے بارے میں کچھ دلچسب حقائق بیان کرتے ہیں۔
وٹس ایپ : سب سے ذیادہ استعمال ہونے والی میسجنگ ایپ

1۔ 19 ارب ڈالر میں فیس بک کو فروخت

گذشتہ سال فروری 2014 میں وٹس ایپ کی مقبولیت کی وجہ سے فیس بک نے اس کو 19 ارب ڈالر کی ناقابل یقین قیمت میں خریدلیا تھا۔ 19 ارب ڈالر کتنی بڑی قیمت ہے ؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ نوکیا جیسی معروف کمپنی کا موبائل ڈویژن مائیکروسافٹ نے تقریباً ساڑے 7 ارب ڈالر میں خریدا تھا، اسکے علاوہ گوگل نے ایک اور موبائل ساز ادارے مٹرولا موبلیٹی کو صرف پونے 3 ارب ڈالر میں چینی کمپنی لینوو کے ہاتھ بیچا تھا۔اسی وجہ سے وٹس ایپ کی فروخت ٹیکنالوجی کی دنیا کی آج تک کی سب سے مہنگی قیمت میں ہوئی ہے۔
وٹس ایپ اب فیس بک کی ملکیت ہے۔

2۔ ایک ارب فعال صارفین

اس ماہ وٹس ایپ نے اعلان کیا ہے کہ وٹس ایپ کے فعال صارفین کی تعداد ایک اارب سے تجاوز کر چکی ہے۔یعنی دنیامیں ہر 7 میں سے ایک آدمی کےپاس وٹس ایپ کا اکاؤنٹ موجود ہے۔یہ بات دلچسبی سے پڑھی جائے گی کہ ایک سال پہلے کمپنی نے 50 کروڑ صارفین حاصل کرنے کا سنگ میل عبور کیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ایک سال میں وٹس ایپ پر 50 کروڑ افراد نے اکاؤنٹ بنایا ہے یعنی اس ایپ کی مقبولیت مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔

3۔روزانہ 42 ارب پیغامات کی ترسیل

وٹس ایپ کے مطابق اس ایپلیکیشن کے صارفین روزانہ 42 ارب میسجز کا تبادلہ کرتے ہیں یہی نہیں بلکہ وٹس ایپ کے پلیٹ فارم کے ذریعے ہر 24 گھنٹوں میں ڈھائی کروڑ وڈیوز بھی ایک دوسرے سے شئیر کی جاتی ہیں۔

4۔ بالکل مفت سروس

وٹس ایپ کی خاص بات یہ ہےکہ اب یہ سروس بالکل مفت دستیاب ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس سروس کی فیس صرف ایک ڈالر سالانہ تھی مگر کمپنی نے جنوری 2016 سے وہ بھی ختم کر دی ہے اور اب ہر صارف زندگی بھر بغیر کسی فیس اور اشتہارات کی جھنجٹ کے وٹس ایپ استمال کر سکتا ہے۔

5۔ وٹس ایپ وائس کال

وٹس ایپ نے کتوبر 2014 میں مفت وائس کال فراہم کرنے کی سروس کا آغاز کیا ہے اور بہت سے لوگوں کیلئے اب یہ فون کال کا متبادل ہے اورمفت انٹرنیٹ وائس کال فیچر کی وجہ سے یہ مائیکروسافٹ کی مقبول عام سروس "سکائپ" کے بالمقابل بھی آ چکی ہے۔

5۔ بڑھتا ہوا مقابلہ

گرچہ وٹس ایپ بین الاقوامی طور پر سب سے ذیادہ استعمال ہونے والی میسجنگ سروس ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے ملکوں مقامی میسجنگ ایپس کی حکمرانی ہے،جیسا کہ میسجنگ ایپ"    وی چیٹ" کے چین میں 50 کروڑ صارفین ہیں۔ اسی طرح "لائن " جاپان جبکہ" کاکئو ٹک "کوریا میں مقبول ترین میسجنگ ایپس ہیں۔

6۔ پیسے بنانے کی نرم پالیسی

وٹس ایپ میں دیگر ایپس کی طرح سبسکرپشن فیس،اشتہارات یا سٹکرز بیچ کر پیسے نہیں کمائے جاتے بلکہ اس کی ایک ڈالر سالانہ قیمت کو بھی وٹس ایپ  جنوری 2016  سے  ختم کر دیا ہے یوں یہ اب ایک بالکل مفت سروس بن گئی ہے۔کمپنی کے بانی کم جان قوم کا کہنا ہے کہ " ہماری کوشش ہے کہ ہر انسان کو قابل بھروسہ اور کم خرچ سروس کی زریعے دنیا بھر سے رابطہ رکھنے کے قابل بنایا جائے۔"

7۔آغاز اور فروخت کی دلچسب کہانی

 وٹس ایپ کے بانی جان کوم اور برائن ایکٹن نے 2007 میں یاہو میں ملازمت سے استعفیٰ دیا اور اسکے بعد انھوں سے فیس بک میں ملازمت کیلئے درخواست دی ،جس کو نظر انداز کر دیا گیا۔فروری 2009 میں انھوں نے وٹس ایپ کا آغاز کیااور صرف پانچ سال بعد فیس بک نے ان کی بنائی ہوئی ایپ کو 19 ارب ڈالر میں خریدا جن میں سے 4ارب کیش جبکہ باقی رقم فیس بک شئیر کی صورت میں دی گئی ،یوں اب  یہ دونوں فیس بک میں 12 فیصدشئیر کے مالک ہیں۔

مزید پڑھیے: اسرار جہاں

فیس بک "لائیک بٹن" بالآخر اپگریڈ ہونےکے قریب

فیس بک کی سہہ ماہی میٹنگ کے اختتام پر  کمپنی کے بانی مارک زکربرگ  نے اعلان کیا ہے کہ کسی بھی فیس بک پوسٹ پر  مناسب ردعمل کے اظہار کے لئے فیس بک لائیک بٹن کے علاوہ نئے 6 ایموجی متعارف کرانے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکی ہے اور جلد ہے تمام پلیٹ فارم کیلئے لائیک بٹن کو اپڈیٹ کر دیا جائے گا۔

دیکھا جائے تو ایک  عرصے سے فیس بک ڈسلائیک بٹن کےحوالےسے مختلف افوائیں گردش میں تھیں،پھر یہ خبر چلی کی فیس بک میں ڈسلائیک کی بجائے اظہار ہمدردی کیلئے بٹن متعارف کرایا جائے گا ۔لیکن اب کمپنی انتظامیہ نے اپنے یوزرز کیلئے ایک سے ذیادہ آپشن مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔



فیس بک صارفین کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کسی پوسٹ پر ردعمل کے اظہار کیلئے لائیک بٹن کے علاوہ دوسرے بھی آپشن موجود ہونے چاہیں تا کہ کوئی بھی پوسٹ کی نوعیت کے لحاظ سے اپنا مناسب ردعمل ظاہر کر سکے۔اگر آپ فیس بک کے صارف ہیں تو  یقیناً بعض اوقات آپ خود بھی مختلف پوسٹوں پر ردعمل کے اظہار میں مشکل کا شکار ہوئے ہونگے۔اکثر کسی  بے فائدہ، اکتا دینے والی یا  بے تکی  پوسٹ کو "ڈسلائیک " کرنے کو دل کرتا ہے،مگر ناپسندیدگی کے اظہار کی کوئی صورت نہ ہونی کی وجہ سے کچھ کیا نہیں جا سکتا۔یا پھر کسی افسردہ اور غمگین پوسٹ کو "لائیک" کرنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔اسی لئے آپکے جذبات کے اظہار میں  حائل "لائیک بٹن" میں اضافہ کرتے ہوئے پانچ اضافی بٹن متعارف کرائے گی تا کہ پوسٹ کی مناسبت سے آپ اپنے ردعمل کو درست طریقے سے بیان کر سکیں۔

ردعمل کے لئے اضافی بٹن:

اب کسی بھی پوسٹ پر آپ ردعمل  میں ناراضگی کا اظہار کرنا چاہیں(Angry)،کوئی پوسٹ دل میں اتر جائے(Love)، کوئی قہقہ لگانے پہ مجبورکردے(Haha)، آپ کو حیرت میں گم کر دے(Wow) یا کوئی پوسٹ آپ کو افسردہ کر دے(Sad)آپ ان تمام جذبات کا اظہار مناسب ایموجی کے ذریعے دے سکتے ہیں۔

فیس بک کے نئے ایموجی بٹن

فیس بک کی دوسری میجسنگ سروسز مثلاً میسنجراوروٹس ایپ پر پہلے سے جذبات کے اظہار کیلئے بیسیوں ایموجی موجود ہیں اور پیغامات کے تبادلے میں ان کا استعمال بھی انتہائی ذیادہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک انتظامیہ مکمل پر اعتماد ہے کہ ان بٹنوں کے اضافے سے فیس بک کے ڈیڑھ ارب صافین مقبول سوشل نیٹ ورک کو مزید  سہولت سے استعمال کر سکیں گے۔

مزید پڑھیے:مارک زکربرگ اس سال مصنوعی ذہانت کی تیاری میں منہمک

نئے کمپیوٹر پروسیسر صرف ونڈوز 10 کو سپورٹ کریں گے: مائیکروسافٹ

اگست 2015 میں ونڈوز 10 کی رونمائی کی بعد مائیکروسافٹ کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے ذیادہ سے ذیادہ صارفین کو ونڈوز 10 کے پلیٹ فارم تک لایا جائے۔خبر یہ ہے کہ ا س مہم  میں مائیکروسافٹ  نے اب اپنےساتھ سی پی یو مینوفیکچررز کو بھی شامل کر لیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ انٹل ،اے ایم ڈی اور کوالقام جیسے اداروں کے تیار کردہ نئے سی پی یو صرف اور صرف ونڈوز 10 کے ساتھ ہی مکمل مطابقت رکھیں گے۔اس وجہ سے  نئے کمپیوٹرز پر ونڈوز10 ذیادہ بہتر اندازاور برق رفتاری سے کام کر سکے گی مگرونڈوز  کے پرانے ورژن  مثلاً ونڈوز7 اور ونڈوز 8سہولت سے نہیں چل سکیں گے۔
 
ونڈوز10 کا سکرین شاٹ
مائیکروسافٹ کی نڈوز 10 کی ریلیز سے ہی  کوشش تھی کہ جلد از جلد ذیادہ سے ذیادہ کمپیوٹرصارفین ونڈوز 10 پر منتقل ہو جائیں۔ اسی لئے مائیکروسافٹ نے تاریخ میں پہلی دفعہ صارفین کو آفر دی کہ وہ مفت اور بلا معاوضہ  اپنے  کمپیو ٹر کو  ونڈوز 10 پراپگریڈ کر سکتے ہیں۔یوں بہت سے صارفین نے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے آپریٹنگ سسٹم پر منتقل بھی ہوئے لیکن شاید  مائیکروسافٹ ابھی بھی ونڈوز 10 کے صارفین کی تعداد سے مطمئن نہیں ہے۔اس لئے ساتھ کچھ ماہ پہلے مائیکروسافٹ  نےتاحال  ونڈوز 8 اور 7 استعمال  کرنے والے صارفین کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے خبردار کیا کہ وہ جلد از جلد  ونڈوز 10 پر منقتل ہو جائیں یا پھر  تاخیر کی صورت میں وہ کبھی نئے آپریٹنگ سسٹم پر منتقل نہیں ہو سکیں گے۔

مزید پڑھیے:پہلا مائیکروسافٹ فون

 اب  مائیکروسافٹ کے اس اعلان کے بعد وہ  پرسنل کمیپوٹرز  جن پر ونڈوز 8 یا 7 نصب ہو گی ان کو 2017 میں یہ پیغام بھیجا جائے گا کہ "آپ کا کمپیوٹر صرف انتہائی سنگین سیکورٹی خدشات  سے روک تھام کیلئے اپڈیٹ حاصل کر ے گا۔" مگریہ نئی حکمت علمی مائیکروسافٹ کی پالیسی کےخلاف ہے جس میں کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ونڈوز 7 کی سپورٹ 2020 جبکہ ونڈوز 8 کی سپورٹ 2020 تک جاری رکھی گی۔یہ تمام  پیش رفت اس بات   کا ثبوت ہے کہ کمپنی اپنے پرانے آپریٹنگ سسٹم کو نظرانداز کر کے اپنی توجہ صرف ونڈوز 10 پرمرکوز کرنا چاہتی ہے۔ 

تنقید:

مائیکروسافٹ جس طرح سے جارحانہ پایسی کے زریعے اپنے صارفین کو ونڈوز 10 پر منقتل کرنا چاہ رہی ہے اس سے وہ مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے صارفین کی ایک بڑی تعداد ونڈوز کےمتبادل سسٹمز لینکس اور ایپل میک پر منقتل ہو جائے گی جو کہ کمپنی کیلئے سود مند نہیں کیونکہ پہلے ہی اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے پرسنل کمپیوٹرز کی فروخت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے  ۔کم کمپیوٹرفروخت ہونے کی وجہ  سے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے صارفین بھی کم ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیے:ونڈوز 10کی تنصیب اور پہلا تاثر 

 


آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت

جون 1905 میں آئن سٹائن  نے  اپنے سب سے انقلابی، اثر انگیز اوربہترین نظرئیے کو ایک مقالے میں پیش کیا۔بالکل،آپ ٹھیک سمجھے ہم نظریہ اضافیت کی بات کر رہے ہیں۔مگر جیسا کہ عام خیال ہے اضافیت بذات خود ایک نیا نظریہ نہیں تھا بلکہ اضافیت کا تصور گلیلیو اور نیوٹن کے دور سے موجود تھا۔لیکن آئن سٹائن نے اضافیت کو ازسر نو ایک نہیں بلکہ دو مختلف شکلوں میں بیان کیا۔جون 1905 میں شائع مقالے میں آئن سٹائن نے پہلے خاص نظریہ اضافیت(Special Theory of Relativity ) کو پیش کیا،جس نے دو سو سالوں سے رائج نیوٹونی حرکیات کی بنیادیں الٹ دیں اور زمان ومکاں کے حوالے سے رائج ہمارے ادراک و نظرئیے کو نئے سرے سے استوار کیا۔لیکن خاص نظریہ اضافیت کو سمجھے کیلئے ہمیں حرکت اور سکون کے بارے میں مزید جاننا ہو گا اس لئے کچھ دیر 1905 سے ماضی میں چلتے ہیں۔
طبیعات کی سب سے مشہور مساوات

(یہ مضمون  کے اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے جس کو آپ یہاں ملاحضہ کر سکتے ہیں۔)

 

ارسطو،گلیلیو ،نیوٹن اور اضافیت:

اضافیت کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے حرکت کے تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔بینادی طور پر تمام جاندار حرکت کا ادراک رکھتے ہیں لیکن  حرکت بذات خود کیا چیز ہے ؟اس کا جواب سب سے پہلے اسطور نے دینے کی کوشش کی۔یونانی فلسفی ارسطو کے مطابق تمام اشیاء ترجیحی طور پر حالت سکون میں موجود ہوتی ہے۔ یعنی جب آپ کسی چیز کو حرکت دیں تو وہ جلد از جلد حالت سکون میں آنے کی کوشش کرتی ہے اور کچھ وقت کے بعد دوبارہ ساکن ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پر جب آپ کسی فٹبال کو ٹھوکر ماریں کو وہ کچھ دیر حرکت کرنے کے بعد واپس حالت سکون میں آ جائے گا۔ارسطو کایہ نظریہ صدیوں  تک رائج رہا ،یہاں تک کہ گلیلیو نے اپنی تجربات کی بدولت اس کو رد کیا۔(حرکت کے بارے میں قدیم نظریات کیلئے یہاں مزید پڑھیں۔)

گلیلیو نے  کشش ثقل کے زیر اثر آذادانہ گرتے اجسام کا مطالعہ کیا اور اپنے  عمیق مشاہدے کے باعث حرکت کے بارے میں جدیدتصورات کی بنیادرکھی۔اپنے تجربات کی بنیاد پر گلیلیو نے یہ نتیجہ نکالا کہ  کوئی بھی چیز ترجیحی طور پر حالت سکون یا حرکت میں نہیں ہو گی۔بلکہ حرکت اور سکوں ایک دوسرے کے لحاظ سے اضافی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔اس کو ہم مثال کے زریعے بہتر سمجھ سکتے ہیں :فرض کریں آپ ایک دوست کے ساتھ ریل میں سوار ہو کر  کسی دوسرے شہر جاتے ہیں، ساتھ والی سیٹ پر موجودآپکا دوست آپکے حوالے سے ساکن ہے،کیونکہ اسکے اور آپکے درمیان فاصلہ تبدیل نہیں ہو رہا۔ مگر سڑک پر موجود آپکے کے والدین کے حوالے سے آپ دونوں حرکت میں ہیں،کیونکہ آپ دونوں ہر لمحہ ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔امید ہے یہاں آپ سمجھ گئے ہونگے کہ حالت حرکت یا حالت سکون  حوالگی فریم (فریم آف ریفیرنس) کے   وجہ سے تبدیل ہو جاتےہیں۔



  اگر غور کیا جائے تو   آپ کسی بھی طریقے سے یکساں حرکت  یا حالت سکون میں فرق نہیں کر سکتے،اضافیت  میں یہ انتہائی  بنیادی نقطہ   ہے۔ جس کو سمجھنے کیلئے  ہم آپکو دوبارہ ایک ٹرین بلکہ  "آئیدیل ٹرین" کے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ آئیڈیل اس لئے کیونکہ ٹرین کا ہر ڈبہ ساؤنڈ پروف اور جمپ پروف ہے یعنی آپ آواز اور ڈبے کے ہلکوروں سے یہ نہیں جان سکتے کہ یہ ساکن ہے یا متحرک۔

فرض کریں آپ  اس ٹرین میں سوار ہوتے وقت انتہائی تھکاؤٹ کا شکار تھے،اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی آپکو اونگھ آ گئی۔اس ہلکی سے نیند کے دوران ٹرین آہستگی سے سٹارٹ ہوئی اور 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی انتہائی رفتار سے چلنے لگے۔(اتنی لمبی تمہید کے بعد) اب سوال یہ ہے کہ نیند سے جاگے کے بعد کیا آپ  بتا سکتے ہیں کہ ٹرین ساکن ہے یا متحرک؟  کیونکہ   روز مرہ تجربات میں ہم بہ آسانی حالت حرکت اور ساکن حالت میں فرق کر سکتے ہیں، اس لئے عقل سلیم کے مطابق کوئی ایساطریقہ ضرور ہو گا جس کو استعمال کرتے ہوئے  یہ بتانا جا سکے کہ  ٹرین حرکت میں ہے یا ساکن۔ لیکن حقیقت  اس کے بر عکس ہے،یعنی کسی بھی طبعی طریقے کو ااستعمال کرتے ہوئے  آپ کبھی یہ نہیں جان سکیں گے کہ "آیا ٹرین ساکن ہے یا متحرک؟"۔

اس ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ دو مختلف  جگہوں پر موجود مختلف شاہدین  کے لئے یکساں والاسٹی سے حرکت اور حالت سکون میں فرق کرنا ناممکن ہے۔ہم یہ فرق کیوں نہیں کر سکتے ؟ اسکا  جواب  مشہور طبعیات دان آئزک نیوٹن نے دیا  ہے۔نیوٹن نے اوپر موجود پوری "کہانی " کو ایک جملے میں بیان کیا کہ "یکساں ولاسٹی سے متحرک  یا ساکن حالت میں  موجود جسم پر کوئی قوت عمل نہیں کر رہی ہوتی اس لئے طبعی نقطہ نظر سے دونوں  میں فرق بھی ممکن نہیں۔" اس بیان کو نیوٹن کا پہلا قانون حرکت  کہا جاتا ہے۔

ریڈیائی لہریں اور روشنی کی رفتار:

واپس آئن سٹائن کی طرف جانے سے پہلے ہم ایک اور پیش رفت کی جانب چلتے ہیں۔ برطانوی طبعیات دان میکسویل نے   نہ صرف کائنات کے دو بنیادی قوتوں  یعنی برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو یکجا کیابلکہ اس کے ساتھ ہی تمام تر برقناطیسی  مظاہر کو بیان کرنے کے لئے چار مساواتوں کو بھی پیش کیا۔ یہ مساواتیں میکسویل مساواتیں کہلاتی ہے اور آج تک کامیابی سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ان مساواتوں کے بدولت میکسویل نے ثابت کیا کہ روشنی بھی ایک برقناطیسی موج ہے اور تمام برقناطیسی موجیں خلاء میں  ایک مستقل رفتار سے سفر کرتی ہیں۔کیونکہ ہر موج کی پیدا ہونے کیلئے ایک واسطے کی  ضرورت ہوتی ہے اس لئے فرض کیا کہ ایک انتہائی آئیڈیل خصوصیات  کا حامل واسطہ کائنات میں ہر سمت موجود ہے جس کو ایتھر کا نام دیا گیا۔
اس عرصہ میں دو امریکی سائنسدانوں مائیکلسن اور مورلے نے تجربہ وضع کیا جس سے  روشنی کی رفتار کا انتہائی درستگی کے ساتھ ناپی جا سکتی تھی۔ اسی تجربے کو انھوںنے ایتھر کا وجود  ثابت کرنے کیلئے استعمال کیا۔کیونکہ زمین سورج کے گرد مسلسل حرکت کر رہی ہےاور اس دوران وہ مسلسل ایتھر میں سے گزر رہی ہے، اس لئے سائنسدانوں کا اندا زہ تھا کہ  مختلف اطراف سے زمین پر پڑھنی والی روشنی کے رفتار مختلف ہو گی لیکن یہاں ایک حیرت انگیز نتیجہ حاصل ہوا۔مائیکلسن اور مورلے نے جس سمت سے بھی روشنی کی رفتار کی پیمایش کی ہر سمت سے ہمشہ یکساں نتیجہ حاصل ہوا۔یوں ایتھر کو ثابت کرنے کی بجائے اس تجربے نے ایتھر کے تصور کو ہی ختم کر دیا۔

آئن سٹائن اور اضافیت

یہاں سے اب ہم آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی طرف  آتے ہیں ۔آئن سٹائن نے ایک بہت جرات    مندانہ  مفروضہ پیش کیا ہے ہر مختلف حوالگی فریم میں موجود تمام  مشاہدین کیلئے"روشنی کی رفتار ہمیشہ مستقل ہو گی"۔ اس کی ایک دلیل ہم آئیڈیل ٹرین میں دیکھ سکتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ اسی ٹرین میں ہیں اور آپکے پاس روشنی کے پیمائش کا ایک  آلہ موجود ہے اور آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ ٹرین متحرک ہےیا ساکن؟اگر روشنی کی رفتار مستقل نہ ہو تو اس کا جواب دینےآپ نے صرف روشنی کی رفتار ناپ کردے سکتے ہیں کیونکہ چلتی ہوئی ٹرین میں روشنی کی رفتار ساکن حالت سے مختلف ہو گی۔لیکن آئن سٹائن کا اس بات پر پورا یقین تھا  کہ   قدرت میں ساکن اور یکساں رفتار سے متحرک جسم میں فرق کرنا ممکن نہیں اس لئے یہ تجربہ بھی آپ کو حرکت/سکون میں فرق نہیں بتا سکتا،اس لئے روشنی کی رفتار تمام جگہوں پر مستقل ہونی چاہیے۔
روشنی کی رفتار تمام شاہدین کیلئے مستقل  ہو تی ہے بظاہر بے ضرر مفروضہ لگتا ہے لیکن اس  کے بہت حیران کن اور عقل سلیم کے خلاف نتائج نکلتے ہیں۔

1۔ وقت کا آہستہ ہو جانا:

نیوٹن کے دور سے متفقہ خیال یہی تھا کہ وقت تمام شاہدین کیلئے ہمشہ یکساں رفتار سے گرزتا ہے۔لیکن خاص نظریہ اضافیت کے مطابق جب بھی کوئی جسم روشنی کی رفتار کے قابل موازنہ رفتار پر حرکت کرتا ہے تو اس جسم کیلئے وقت آہستگی سے گزرے گا۔لیکن قابل مشاہد ہ فرق کیلئے جسم کی رفتار روشنی کی رفتار کے قابل موازنہ ہونی چاہیے۔یو ں دو مختلف شاہدین کیلئے وقت کی رفتار بھی مختلف ہو سکتی ہے۔یہیں سے جوڑواں بھائیوں کے تناقضے  جنہم لیتا ہے۔فرض کریں آپکے محلے میں دو جوڑاواں بھائی موجود ہیں، ان میں سے ایک بھائی ایک راکٹ میں سوار ہو کے کائنات کی وسعتوں کی سیر کیلئے چلا جاتا ہے اور 5 سال بعد واپس زمین پر آ جاتا ہے۔لیکن اپنے جوڑویں بھائی سے ملکر حیران رہ جاتا ہے کیونکہ اسکا بھائی اب بوڑا ہو چکا ہوتا ہے۔

2۔ لمبائی کا سکڑنااور کمیت میں اضافہ:

انتہائی تیز رفتار حرکت صرف وقت پر اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ اس سے جسم کی لمبائی سکڑنے لگتی ہے اور کمیت بڑھنے لگتی ہے۔لمبائی  اورکمیت میں اس کمی بیشی کا مشاہدہ بھی روشنی سے قابل موازنہ رفتاروں پر کیا جا سکتا ہے۔

توانائی اور کمیت کا باہمی تعلق:

چونکہ ایک متحرک جسم کی کمیت ،رفتار کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے،جس کی وجہ سے جسم کی حرکی توانائی بھی اسی نسبت سے بڑھ جائے گی۔یوں آئن سٹائن ایک اور نتیجے پر پہنچا کہ توانائی اور کمیت بھی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس نظرئیے کو آئن سٹائن نے ستمبر 1905 میں ایک مزید پیپر شائع کیا جس میں اس نے ثابت کیا کہ کمیت اور توانائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بعد ازاں یہی نقطہ  ایٹمی بموں اور ایٹمی بجلی گھروں کی بنیادبنا۔


ایپل اسمارٹ واچ ،صارف کا پہلا انتحاب

ایپل نے 2007ء میں اسمارٹ فون کے میدان میں پہلی دفعہ قدم رکھا اور آتے ہی اس نے تمام صارفین کو اپنا گرویدہ کر لیا،آٹھ سا ل بعد آج  بھی ایپل آئی فون 6ایس سب سے ذیادہ فروخت ہونے والے  موبائل فونوں میں سے ایک  ہے۔بالکل یہی صورتحال اب ذہین گھڑیوں کی مارکیٹ کی بھی ہے، ایپل نے اپرئل 2015 میں  ایپل واچ فروخت کیلئے پیش کی ا ور یہ بھی توقعات کی عین مطابق سال میں سب سے ذیادہ فروخت ہونی والی اسمارٹ گھڑی بن گئی۔

ایک جاپانی تحقیقی ادارے کی مطابق 2015 میں فروخت ہونے والی اسمارٹ گھڑیوں میں ایپل واچ کا حصہ 52 فیصد تھا۔یعنی  سیمسنگ ، ایل جی ، مٹرولا اور ہواؤے جیسی باقی تمام  اداروں کی اسمارٹ گھڑیاں ملکر بھی ایپل واچ کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق  گذشتہ سال گوگل کے آپریٹنگ سسٹم اینڈرائد وئیر (Android Wear) پر مشتمل گھڑیوں کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا اور انکی مانگ میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی۔
ایپل واچ

نومبر 2015 میں سیمسنگ نے اپنے تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم ٹائزن (Tizen) سے لیس گھڑی گلیسی گئیر ایس 2 بھی پیش کی جو خاطر خواہ پزیرائی نہ حاصل کر سکی۔چونکہ یہ ادارے کوئی مظبوط حریف پروڈکٹ نہیں کر سکے اس لئے چھوٹی اور غیر معروف کمپنیوں کی سستی اسمارٹ گھٹریوں کی فروخت میں بھی قابل قدر اضافہ دیکھنے میں آتا۔یہ گھڑیاں کم قیمت ہونے کے باوجود ایک اسمارٹ واچ کے بنیادی فعل مثلاً نوٹیفیکیشن الرٹ اور فٹنس ٹریکنگ مہیا کرتی ہیں جب کہ بڑے ناموں کی مصنوعات  مہنگی بھی ہیں اور اپنی قیمت کے مطابق صارفین کیلئے پرکشش اضافی فیچر ز سے بھی محروم ہیں۔

مزید پڑھیے: ایپل بمقابلہ سیمسنگ اور نوکیا و مٹرولا کی فروخت


تجزیہ کاروں کےمطابق اگرچہ اسمارٹ واچ اور دوسے پہننے کے قابل آلات(وئیرایبل) فی الحال عالمی  مارکیٹ میں مستحکم جگہ نہیں بنا سکے اسی وجہ سے آئندہ برس میں بھی اسمارٹ گھڑیوں کی فروخت میں ڈرامائی اضافے کا امکان نہیں،کیونکہ ان مصنوعات کے تیار کنندگان کے پاس گھڑیوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کے علاوہ ان کی افادیت و صلاحیت(Functionality) میں نمایاں اضافے کا امکان نہیں ہے۔

اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ اپرئل 2016 میں پیش کیا جانے والا ایپل واچ کا اگلاورژن  کتنا بہتر ہو گا اور صارفین میں مقبولیت برقرار رکھ پائے گا کہ نہیں۔

مزید پڑھیے:  سمارٹ فون:ماضی ،حال اور مستقبل 


مارک زکربرگ اس سال مصنوعی ذہانت کی تیاری میں منہمک

فیس بک نے بانی مارک زکربرگ ہمیشہ خبروں میں رہنے کے فن سے آگاہ ہیں ۔ وہ ہر سال کے آغاز پرنئے سال کے لئے ایک نیا کام کرنے کا اعلان کرتے ہیں تا کہ وہ نئی نہ صرف نئی چیزیں سیکھ سکیں بلکہ ایک فرد کی حثیت سے اپنی شخصیت کی نشونما بھی جاری رکھ سکیں۔
 
آئرن مین کا جاروس
2016 کیلئے زکر برگ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں اعلان کیا ہے کہ اس سال وہ گھر اور دفترمیں اپنی مدد کیلئے ایک مصنوعی ذہانت سے لیس معاون تخلیق کرنا چاہتے ہیں ، جو کہ ٹونی سٹارک کے ہر فن مولا پرسنل اسسٹنٹ "جاروس" کے مشابہ ہو گیا۔
اگر آپ آئرن میں کہ فین ہیں تو پھر آپ جاروس سے بخوبی واقف ہونگے لیکن ایسا نہیں تو آپ کا جاروس سے تعارف کرائے دیتے ہیں۔جاروس ،مارول سٹوڈیوز کے کامک سپرہیروآئرن مین کے مصنوعی ذہانت لے لیس ذاتی معاون کا نام ہے۔اس کو ٹونی سٹارک(آئرن مین) نے اپنی مدد کیلئے تیار کیا ہے جو کہ آئرن میں کے فولادی سوٹ کے ساتھ لیبارٹری میں بھی ہمہ وقت خدمت کیلئے موجود ہوتا ہے۔ جاروس آئرن مین کے سوٹ میں اڑان بھرنے، اسلحہ، بیٹری کی معلومات کے ساتھ کسی بھی لمحے میں آئرن مین کے تحقیقی سوال کا جواب انٹرنیٹ پر موجود معمولات کو کھنگال کرسیکنڈوں میں لا دیتا ہے۔اگرچہ زکربرگ کا سافٹ وئیر جاروس جیسی ذہانت کا حامل تو نہیں تو گا مگر یہ ایک حقیقی ذہین معاون کی تیاری کیلئے ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے۔

فیس بک سے منسلک ہونے کے باعث زکر برگ مصنوعی ذہانت کے میدان میں موجود حالیہ ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ آپکی فیس بک وال پر موجود تمام پوسٹیں اور اشہارات مصنوعی ذہانت سے لیس سافٹ وئیر کی مدد سے ترتیب دی جاتیں ہیں۔اس لئے وہ انھیں دستیاب وسائل سے اپنے نئے منصوبے کو شروع کریں گے۔اس حوالے سے انکا کہنہ تھا کہ "اس معاون کا سافٹ وئیر لکھنا میرے لئے دلچسبی کے علاوہ ایک چیلنج بھی ہو گا۔"

پہلے مرحلے میں انکا معاون انتہائی سادہ کام کرنے کے قابل ہو گا۔جس میں وہ اسے اپنی آواز شناخت کرنے کے ساتھ گھر کے روزمرہ کام مثلاً برقی قمقموں،ہیٹر/ائیرکنڈشنر،ٹیلیوژن یا میوزک پلیئر کو کنٹرول کرنے کے قابل بنائیں گے۔جبکہ دوسرے مرحلے میں وہ اس پروگرام کو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے بصری شناخت سکھائیں گے تا کہ جب بھی ان عزیز و اقارب میں کوئی انکے گھر کی گھنٹی بجائے تو یہ پروگرام از خود انھیں شناخت کر کے دروازہ کھول سکے۔

گھر کے علاوہ یہ معاون ان کے دفتر میں بھی موجود ہو گا،جہاں وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے فیس بک، انسٹاگرام اور میسنجر جیسی سروسز کیلئے انتہائی وسیع ڈیٹا کو مجازی دنیا(Virtual Reality)میں دیکھ(Visualize) سکیں گے۔

بتاتے چلیں کہ گذشتہ برسوں میں بھی زکربرگ نئے سال کیلئے مختلف قراردادیں کر چکے ہیں جن میں سے ہر ماہ دو نئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ، ہر دن ایک نئے آدمی سے ملاقات کرنے کی شامل ہیں۔اس لئے اگر ہم ذاتی معاون تو تیار نہیں کر سکتے مگر نئی کتابیں پڑھنے یا نئے لوگوں سے ملنے جیسا کام تو ضرور کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  منٹوں میں چارچ ہونے والی موبائل بیٹری