دی ماریشین ؛ مریخ پر اکیلے بے یارو مدد گار خلا نورد کی داستان

دی مارشین اکتوبر 2015 میں نمائش کیلئے پیش کی گئی سائنس فکشن فلم ہے۔ اس فلم میں مریخ پر بھیجے گئے ایک خلائی مشن کو موضوع بنایا گیا ہے،جسے ایک ناگہانی طوفان کی وجہ سے فی الفور ختم کر دیا جاتا ہے۔اس ہنگامی انخلاء کے دوران ایک مریخ نورد 'مارک واٹنی ' ایک حادثے کا شکار ہو کر بے ہوش ہو جاتا ہے اوراسکا باقی ساتھیوں سے ریڈیو  رابطہ بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔طوفان کی سنگینی کی وجہ سے خلائی  ٹیم مارک واٹنی کو مردہ سمجھ کر مریخ پر اکیلا چھوڑ کر واپسی اختیار  کر لیتی ہے۔

دی ماریشین، فلم پوسٹر

فلم کی کچھ کہانی۔۔۔

لیکن ۔۔۔مارک اس حادثے میں شدید زخمی ہو کر  بے ہوش ضرور ہو تا ہے مگر زندگی کی بازی نہیں ہارتا۔ہوش میں آنے کے بعد اسے مریخ جیسے بے آب و گیاہ ،سنسان اور ویران سیارے پر زندہ رہنے کیلئے جدو جہد کرنی پڑھتی ہے۔مگرخاص بات یہ ہے کہ یہ جدوجہد دوسری مصالحہ سائنس  فکش فلموں کی طرح ایک انتہائی ترقی یافتہ ، بھیانک اور انسان دشمن مریخی مخلوق کی بجائے مریخ کے انتہائی شدید ماحول،آکسیجن سے عاری فضا، خوراک کی کمی   اور بنجرزمین کے ساتھ ہوتی ہے۔

ایسا سیارہ جس پر زندگی کیلئے حالات انتہائی غیر موافق ہیں وہاں امید کی واحد صورت زمین سے ناسا(NASA) کے ریسکیو مشن کی آمد ہے۔جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ زمین پر کسی کو مارک کے زندہ نچ کا علم نہیں اور مریخ پر  ترتیب شدہ اگلا خلائی مشن 4 سال ترتیب دیا گیا ہے۔ ان  حالات میں  مارک واٹنی پر یہ بےرحم حقیققت واضح ہوتی ہے کہ مریخ پرمرنے والا پہلا انسان مارک خور ہی  ہوگا۔ لیکن خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے کےبجانے وہ حالات سے لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

سیارہ مریخ پر ناسا کے  ایڈوانس خلائی پروگرام کی بدولت واٹنی کے پاس  رہائش کیلئے ایک جدید خیمہ ، ساتھی عملے کی خلائی سوٹ اور تحقیقی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی مریخی گاڑیاں تو دستیاب ہوتی ہیں  لیکن مریخ پر زندہ رہنے کیلئے  خوراک اور پانی  انتہائی کم مقدارمیں  موجود ہوتے ہیں ۔

یہاں واٹنی کو  مریخی اسٹیشن پر موجود اشیاء کو استعمال کرتے ہوئے  اپنے  لئے آلو اگانا پڑھتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی آلوؤں فصل اور ایک لمبے قیام کیلئے اسے  ہائیڈوجن کو جلا کر پانی بھی حاصل کرنا پڑھتا ہے۔لیکن ان سب کے باوجود  زندہ زمین پر واپسی کیلئے اس کو زمین پر موجود ناسا کی خلائی اڈے سے رابطہ کرنا بہت ضروری  ہوتا ہے اور  وہاں موجود مریخی اڈے سے زمین  رابطے کیلئے کوئی زریعہ موجود نہیں ہوتا۔اس مقصد کیلئے مارک کو کلومیٹر دور موجود ایک مریخی کھوجی "پاتھ فائینڈر" کو تلاش کرنا پڑھتا ہے۔

اسی اثناء میں مریخ  کے گرد گردش کرنے والے مصنوعی سیارچوں سے لی گئی تصویروں کی بدولت ناسا کو بھی مارک کے زندہ  ہونے کا علم ہو جاتا ہے ،لیکن ناسا کے پاس بھی مارک واٹنی کے ساتھ رابطے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہوتا۔ اس کے  بعد  فلم میں ایک طرف  زمین پر مارک کو بچانے اور زندہ کوششون واپس  لانے کیلئے کوششوں کا ذکر ہے تو دوسری طرف مریخ پر مارک کی انتہائی مشکل حالات میں زندہ رہنے کی جدجہد دکھائی گئی ہے۔جبکہ تیسری جانب واٹنی کے ساتھ مشن پر جانے والی ٹیم کی  اسے بچانے کیلئے تگ و دو اور قربانی آپ کو فلم کے اختتام تک سکرین سے نظریں ہٹانے کا موقع نہیں دیتی۔

کچھ ذکر کتاب کا۔۔۔

فلم کی کہانی اینڈی وئیر کے ایک اسی نام سے لکھے گئے ایک ناول سے ماخود ہے اورناول نگار فلم کے سکرپٹ میں بھی شریک لکھاری کی حثیت سے شامل رہے ہیں۔اینڈی وئیر کا یہ ناول "دی ماریشین" انکی آنلائن ویب سائٹ پہ  ایک عرصہ موجودرہا اور اس کو بہت پسند کیا گیا بعد ازاں 2014   میں یہ  کتابی صورت میں شائع ہوا ۔ اصل زندگی کے قریب تر مریخی  کی منظر کشی کی وجہ سے اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی وجہ سے اس کے کہانی کو پردہ سکرین پر پیش کرنے کیلئے چنا گیا۔

فلم کاسٹ اور دیگر عملہ

فلم  میں نا مصائب حالات میں ہار نہ ماننے والے خلانورد' مارک واٹنی' کا کردار مشہور اداکار میٹ ڈیمن نے  نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔اپنی پرفارمنس سے میٹ ڈیمن نے ثابت کیا ہے کہ سرخ سیارے پر  ایک کے  تنہا مگرباہمت اور مستقل مزاج خلا باز کے کردار  کیلئے  ان سے بہتر کوئی اور انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔

فلم کے ڈائکٹر مشہور رڈلی سکاٹ ہیں جوکہ "بلیک ہاک ڈاؤن "، "گلیڈی ایٹر" اور" کنگڈم آف ہیون" جیسی یادگار فلمیں بنا چکے ہیں۔دی ماریشین ان کی بہترین فلموں میں ایک اور شاندار اضافہ ہے۔ اس فلم میں انھوں نے بہت خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف 'سرخ سیارے' یعنی مریخ کے ماحول کو پیش  کیا ہےبلکہ اس کے ساتھ خلائی جہازوں اور راکٹ لانچر کے ذریعےسفر کو حقیقی زندگی کے قریب تر انداز میں پردہ سکرین پر پیش کیا ہے۔

باکس آفس کارکردگی اور پزیرائی

اس فلم کی تیاری پر 108 ملین ڈالر لاگت آئی اور اس کو 2 اکتوبر 2015 میں نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔فلمی شائقین کی طرف سے فلم کو زبردست رسپائس ملا اور دنیا بھر میں اس نے 614 ملین ڈالر کا برنس کیا۔
باکس آفس پر ہٹ ہونے کے  ساتھ فلم ناقدین کو بھی پسند آئی اور اسی وجہ سے آسکر 2016 میں اس فلم کو سات مختلف کیٹیگریز میں ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا جن میں بہترین لیڈ رول، بہترین  بصری اثرات اور سال کی بہترین فلم جیسی اہم شامل ہیں۔

مزید سائنس فکش ریویوز:  1۔ گریوٹی      2۔  انٹرسٹیلر

No comments:

Post a Comment