عناصر اربعہ ہوا، آگ ، مٹی اور پانی

600 قبل مسیح سے دانشور اور فطین یونانی فلسفیوں نے اپنی ذہانت نظام ِکائنات اور اس کو بنانے والے مختلف مادوں کی ساخت کو جاننے میں صرف کی۔یونانی فلسفی نئی ٹیکنالوجیاور عملی ترقی کی نسبت 'کیا اور کیوں؟' کے سوال میں گرے رہے۔مختصراً یہی وہ پہلی قوم تھی جنھوں نے'کیمیائی نظریہ'  پر بحث کا آغاز کیا۔

ایسی نظریا ت کی ابتداء تھیلس (Thales)سے ہوئی،اگر چہ اس سے پہلے بھی بہت سے یونانی گزر چکے تھے اور یونانیوں سے پہلے اور اقوام بھی،یقیناً انھوں نے بھی مادے کی تبدیلی کے متعلق غور و فکر کے بعد نتائج اخذ کیے ہونگے ،مگر بد قسمتی تاریخ کے اوراق سےان کےکام کا کوئی بھی حصہ ہم تک نہیں پہنچ سکا ہے۔

تھیلس ایک یونانی فلسفی تھا ،جسکے ذہن میں غالباً یہ سوال پیدا ہو گا کہ:اگر ایک چیز کسی دوسری چیز میں تبدیل ہو سکتی ہے ،مثلاًایک نیلگوں چٹان کو تانبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے،تو پھر اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟کیا وہ درحقیقت ایک چٹان ہے یا تانبہ؟یا یہ دونوں بلکل کوئی اور چیز نہ ہوں؟اگر کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز میں ڈھل سکتی ہے(شاید ایک سے زیادہ مختلف مراحل میں)تو پھر کیوں نہ یہ سبھی اشیاء ایک اصل (عنصر)شے1کی مختلف صورتگری نہ ہوں؟

تھیلس کے نزدیک آخری سوال کا جواب اثبات میں تھا ،کیونکہ ہماری کائنات میں ایک بنیادی ہم آہنگی اور نظم وضبط پایا جاتاہے۔یوں باقی یہی رہ جاتا ہے کہ تلاش کیا جائے کہ وہ بنیادی مادہ،شے یا عنصر کیا ہو سکتا ہے۔

تھیلس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بنیادی مادہ پانی ہو سکتا ہے،کیونکہ یہ زمین میں سب سے زیادہ مقدار میں نظر آتا ہے۔اس نے خشکی کے انتہائی بڑے حصے کو گھیرا ہوا ہے؛یہ کرہ ہوائی میں بھی بخارات کی شکل میں موجود ہوتا ہے؛یہی ٹھوس زمین میں بھی رس کر نچلی تہوں تک چلا جاتا ہے؛اس کے بغیر زندگی ناممکن ہے۔اسی نے پہلے پہل یہ تصور دیا کہ زمین ایک چپٹے دائرے کی طرح ہے،جسکے اوپر ایک نیم کروی آسمان ہے،جو کہ پانی کے لامحدور ذخیرے پر تیر رہاہے۔

تھیلس کا یہ فیصلہ کہ ہر طرح کا مادہ ایک ہی عنصر سے ملکر بنا ہے،فلسفیوں نے تسلیم کر لیا ۔مگر یہ کہ وہ بنیادی عنصر پانی ہے ،اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔تھیلس کے ایک صدی بعد ہی فلکیاتی مشاہدات سے آہستہ آہستہ یہ اخذ کیا گیا کہ آسمان نیم کروی کی بجائے مکمل کرہ ہے،جبکہ زمین خود بھی ایک کروی جسم ہے جو کہ آسمان کے کھوکھلے کرہ کے مرکز میں معلق ہے۔

لیکن اہل یونان کے نزدیک مکمل خلاء کا تصور نہیں تھا؛ اس لئے ان کے خیال میں زمین و آسمان کے بیچوں بیچ صرف خالی جگہ نہ تھی۔کیونکہ اس دور میں زمین سے بلند ترین جگہ تک جہان بھی انسان پہنچا ہوا موجود تھی اس لیے قرین قیاس محسوس کیا گیا کہ ہوا نے آسمان تازمین تمام جگہ کو ہوا نے گھیرا ہوا ہے۔

اس طرح کی سوچ اور خیالات سے ،ایک یونانی فلسفی ایناگزمینس نے تقریباً 570 قبل مسیح میں یہ کہا کہ ہوا ہی کائنات کی بنیادی یا اصل عنصر ہے ۔اس نے یہ محسوس کیا کہ زمین کے مرکز کے قریب ہوا بہت ذیادہ دباؤ کی بنا پر انتہائی کثیف ہو کر سخت مادوں مثلاً مٹی اور پانی جیسے اشیاءمیں بدل گئی تھی۔ جیسا کہ ذیل کے تصویری خاکے میں دکھایا گیا ہے۔

ارسطو کے عناصر اربعہ اور آسمانی عناصربمع علامات



لیکن دوسری طرف ہراکلیٹس(قریباً 550 قبل مسیح میں) کا خیال اس سے مختلف تھا۔اگر یہ "تغیر"(Change)ہی کائنات کا بنیادی وصف ہے تو وہی چیز کائنات کی اصل عنصر ہونے کے لائق ہے جو سب سے ذیادہ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس کے نزدیک ہمیشہ تغیر و تبدیلی سے گزرنے والا یہ عنصر آگ ہو سکتی تھی۔اور آگ سے ہونے والی تبدیلیاں ہی اٹل اور ہمیشگی ہوتی تھیں2۔

ایناگزمینس کے دور میں فارس نے آیونا کے ساحل کو فتح کر لیا تھا۔جب آیونیوں کی مزاحمت ختم ہوئی تو اہل فارس نے سخت رویہ اپنایا ۔اور یہاں سائنسی سرپرستی کی رویت ختم ہو گئی ۔تاہم مغربی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین اپنے ساتھ یہ روایت بھی دوسرے علاقوں میں لے گئے۔فیثاغورس جو کہ آیونہ کے جزیرے ساموس میں پیدا ہوا تھا ،529 قبل مسیح میں نقل مکانی کرکے جنوبی اٹلی چلا گیا ،جہاں اس کی تعلیمات سے بہت ذیادہ دانشوروں پر اثر انداذ ہوئیں۔

عناصر اربعہ:

اس کے معتقدین میں سب میں سے نمایاں یونانی فلسفی ایپڈکولس (490تا 430 قبل مسیح) سسلی کا رہائشی  ایپڈکولس (490تا 430 قبل مسیح) تھا۔اس نے بھی اپنی توجہ کائنات کے اصل عنصر کی تلاش پر مرکوز رکھی ۔لیکن اصل اور بنیادی عنصر کا چناؤ بہت مشکل معلوم ہوا۔اس لئے اس نے ایک درمیانی راستہ چنا جائے۔

کیا لازم ہے کہکائنات کی اصل صرف ایک واحد عنصر ہی کیوں ہے؟کیوں نہ ان کی تعداد ایک سے ذیادہ ہو۔اس نے کائنات کی اصل اور بنیادی عناصر کو چار قرار دیا۔ان میں ہرات کی "آگ"،اینگزیمس کا عنصر "ہوا"،تھیلس کا عنصر " پانی "اور چوتھا عنصر اس کا اپنا تجویز کردہ عنصر"مٹی" تھا۔ 

چار بنیادی عناصر کا یہ نظریہ عظیم ترین یونانی فلسفی ارسطو (384تا 322 قبل مسیح)نے بھی درست تسلیم کیا تھا۔ارسطو نہ ان عناصر کو صرف مختلف اشیاء کا نام نہیں سمجھا۔بلکہ اس کے نزدیک وہ "شے "جسے ہم پانی کے نام سے جانتے اور چھو کر محسوس کر سکتے ہیں حقیقی "عنصر پانی "کی قریب ترین شکل ہے۔

ارسطو کے نقطہ نظر کے مطابق:ایک عنصر دو مخالف جوڑواں خصوصیات مثلاًگرم اور ٹھنڈا،گیلا اور خشک کا مجموعہ ہوتا ہے۔اس کے مطابق ایک خصوصیت کسی اور طرح سے نہیں مل سکتی تھیں۔اس لئے صرف چار جوڑے رہ گئے ۔گرم اور خشک ،آگ؛گرم اور گیلی ،ہوا؛ٹھنڈی اور خشک ،مٹی اور ٹھنڈا اور گیلا پانی بنتا تھا۔

اس کے علاوہ اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور کہا،ہر عنصر کی جدا گانہ خصوصیات ہیں۔اس وجہ سے مٹی نیچے بیٹھتی ہے اور آگ اوپر اٹھتی ہے۔تاہم ،آسمانی اجسام کی خصوصیات زمینی اجسام سے بہت مختلف تھیں۔اوپر یا نیچے حرکت کرنے کے بجائے وہ زمین کے گرد دائروں میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اس لئے ارسطو نے یہ کہا کہ آسمانی اجسام ایک پانچویں عنصر "ایتھر"سے بنے ہیں(یونانی میں ایتھر کا مطلب چمکنا ہے ،یہ نام آسمانی اجسام کے روشنی کی وجہ سے دیا گیا)۔علاوہ ازیں آسمانی اجسام میں کوئی تبدیلی نہیں آتی،ارسطو نے کہا کہ ایتھر مکمل،خالص،بے عیب اور زمین پر موجود چار ناخالص عناصر سے بہت مختلف ہے۔

چاربنیادی عناصر کا یہ نظریہ دو ہزار سال تک اہل علم میں رائج رہا۔آج اگرچہ سائنسی حلقوں میں سے ختم، اور غلط قرار دیا جا چکا ہے۔پھر بھی ہمارے ہاں علم جعفر اور پر اسرار علوم کے ماہرین میں اسی طرح زندہ ہے جیسے دوہزار سال پہلے تھا۔

1 comment:

  1. informative post , if refrance is mentioned it can become more best .

    ReplyDelete