ابتدائے کیمیاء

پتھر کا دور
پتھر کے دور کے اوزار
قدیم انسانی تہذیب کی ابتداء میں قدیم انسان نے دستیاب اشیاء کو ان کی قدرتی حالت میں ہی بطورِ اوزار استعمال کرنا شروع کیا ؛ جس حالت میں اسی آسانی سے میسر ہوتی تھیں۔مثلاٗ درختوں کی مضبوط شاخیں دوسری اشیاء کو توڑنے کے کام آتیں اور شاید اس دور کا انسان پتھروں کو میزائل کے طور پر استعمال کرتا ہو گا۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کا پہیہ بھی رواں ہوا ، انسان نے چٹانوں کو تیز دھار اور نوکیلا بنانا ، اور پھر انہیں لکڑی کے دستوں میں ٹھونک کر بہتر اوزار بنانا سیکھ لیا ۔ ان اوزاوں سے انسانی مشاہدے میں آیا کہ پتھر اور لکڑ دونوں علیحدہ خصوصیات برقرار رکھتے ہیں - لکڑ ،لکڑ رہتی ہے اور پتھر ، پتھر۔
تاہم اشیاء کی بنیادی ساخت تبدیل ہونے کا پہلا مشاہدہ تب ہوا ہو گا جب یقینا ٗ بادل چمکنے سے انسان آگ  سے روشناس ہوا اور آگ کو استعمال کرنے کے "ہنر " سے آشنا ہوا۔ آگ سے حرارت اور روشنی خارج ہونے کے ساتھ انسان نے سیکھا کہ درختوں کی مضبوط لکڑ اپنی پہلی حالت سے یکسر مختلف بےکار اور نرم راکھ میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح کے کئی  اور مشاہدات جیسے کہ گوشت پڑے پڑے گل کر بدبو دار ہو جاتا ہے اور کچھ دن میں پھلوں کا رس کھٹا اور بدزائقہ ہو جاتا ہے ابتدائی انسان کے علم میں رہے ہونگے۔
مختلف مادوں میں ہونے والی یہی تبدیلیاں ایک نئے سائنسی علم کی بنیاد بنیں جسے آج ہم کیمیاء کے نام سے جانتے ہیں؛  بہت بعد میں ہمیں پتا چلا کہ ایسی تبدیلیاں اشیاء کی بنیادی مادوں اور ساخت میں تبدیلی سے رونما ہوتی ہیں ۔ کسی چیز کے  بنیادی ڈھانچے اور ساخت میں تبدیلی کو ہم کیمیائی تبدیلی کہتے ہیں۔

کیمیائی تعاملات کا انسانی فائدے کیلئے استعمال تب شروع ہوا ہو گا جب انسان نے آگ جلانا اور اسے برقرار رکھنا سیکھ لیا ( یقینا  ٗ آجکل آگ لگانا کوئی مشکل کام نہیں رہا ) ۔ اس کے بعد انسان عملی طور پر ایک " کیمیاء دان" بن گیا۔ ایسے طریقے وضع کر لئے جن کے زریعے حرارت پیدا کر کے لکڑ یا دوسرے آتش گیر مادوں کو ہوا سے تعامل کرا کے روشنی، حرارت کے ساتھ دھواں، راکھ اور بخارات حاصل ہوتے ۔ لکڑی کے چھوٹے ٹکڑے اور برادہ تیار کیا جاتا اور پھر رگڑ سے چنگاری پیدا کر کے آگ جلا لی جاتی۔ حاصل ہونے والی حرارت کھانا پکانے ( کیمیائی تعامل) کیلئے استعمال کی جاتی؛ جبکہ کھانا پکانے سے  غذا کا رنگ ، ساخت اور زائقہ تبدیل ہو جاتا۔  آگ سے اینٹیں پکائی جانے لگیں،  پھر آہستہ آہستہ نرتن سازی اور شیشہ سازی کا آغاز شروع ہوا۔ 
پتھر کے  دور میں عام اور آسانی سے دستیاب اشیاء انسان کے زیرِ استعمال تھیں مثلا ٗ پتھر ، لکڑ ، کھالیں اور ہڈیاں وغیرہ ۔ ان سب میں سے پتھر سب سے زیادہ پائیدار، سخت اور دیرپا تھے ۔ اسی لئے آثارِ قدیمہ میں آج بھی ہم پتھر  بکثرت اور آسانی سےدیکھ سکتے ہیں اوراسی لئے  اس دور کو پتھر کا دور کہا جاتا ہے۔
قدیم انسانی آبادی مصور کی آنکھ سے
انسان پتھر کے ہی دور میں تھا کہ  800  سال قبلِ مسیح میں دنیا کے کچھ خطے جو آج مشرقِ و سطا  کے نام سے موسوم ہیں،دنیا کو انقلابی تبدیلیوں سے روشناس کیا۔انسان جو دوسرے جانوروں کی طرح شکار پر گزر بسر کرتا تھا ، اب اس نے غذا کیلئے دوسرے جانور پالنے شروع کیے اور اسطرح غذا کی متواتر فراہمی ہونے لگی۔ اس کے ساتھ مختلف فصلوں کی کاشت سے غذائی اجناس کی مسلسل فراہمی مزید پائیدار ہو گئی۔ غذائی اجناس کی وافر فراہمی سے آبادی بڑھنے لگی۔ ذرعئی کاشت نے انسان کو ایک جگہ رہنے کا پابند کر دیا ۔ یوں مستقل آبادیاں بسنے لگیں اور شہر بننے کا عمل شروع ہوا۔ یہی انقلاب تہذیب ( Civilization ) کے آغاز کا سبب بنا۔( لفظ Civilization لاطینی زبان میں شہر کے لئے مستعمل ہے)۔
قدیم تہذیب کے پہلے چند ہزار سال پتھر اوزار اور آلات بنانے کیلئے بنیادی ضرورت تھا۔ پتھروں کے استعمال کے نئے نئے طریقے وضع کیے جا چکے تھے۔ یہ دور " نیا زمانہِ پتھر " ( Neolithic Age ) کہلایا جو پتھروں کی نفیس پالش کیلئے مشہور ہے۔اسی دور میں برتن سازی کی صنعت میں جدت آئی۔ آہستہ آہستہ ترقی کے اثرات وسطی ایشیائی مرکز سے دور دراز پھیلنے لگے۔ تاہم انسانی تہذیب مشرقِ و سطا خصوصاً قدیم مصر اور Sumeria  (موجودہ عراق )میں ترقی کی نئی منازل طے کرتی رہی۔

 اس باب اگلا حصہ :دھاتیں دریافت تا استعمال آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

٭   آئزک ایسیموف کی کتاب " A Short History of Chemistry" سے اخذ کردہ۔

عنوانِ کلام


اللہ کا نام لے کر آغازِ کلام تو لکھ دیا ہے لیکن عنوانِ بلاگ کےلئے کوئی نام ابھی تک جچ نہیں رہا ہے، احسن یہی ہے کہ سب سے پہلے بلاگ کیلئے بہتر نام سوچا جائے اور یہی ہمارے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔

ابھی یہ سطور لکھنے تک کیونکہ بلاگ صرف میرے ہی زیرِمطالعہ ہے اس لئےبتاتا چلوں کہ اب تک دو دفعہ عنوان کی تبدیلی عمل میں آ چکی ہے۔ پہلا عنوان " sciurdu " تھا؛ جو کہ سائنس اردو کی تلخیص تھا لیکن پھر یہ ترک کر دیا کہ یہ عنوان میں انگریزی زبان کا اثر زیادہ لگ رہا ہے ۔اس کے بعد "صد رنگ" رکھا لیکن یہ ایک اردو ڈائجسٹ "سب رنگ" سے بہت ملتا جلتا لگ رہا تھا اور ساتھ ہی عنوان سے بلاگ کا موضوع گرافکس کی اشارہ کرتا محسوس ہوا اس لئے یہ نام بھی ترک کر کے مزید بہتر عنوان کی تلاش شروع کر دی۔

آخرکار بہت سے نام زیرِبحث رہے اور ایک نام ذہن میں سیاسیات کی طرح " سائنسیات " آ  گیا ۔ گوگل سے سائنسیات لکھ کر کھوج کی تو لفظ کئی جگہ مستعمل تھا سو بلاگ کیلئے یہی نام کنفرم کر لیا اور آپ تک یہی نام پہنچے گا-

سائنس کی اصطلاع آجکل بیت وسیع ہو چکی ہے،اس لئے کوشش رہے گی کہ آپ کو نہ صرف قدرتی سائنسیات( Natural Sciences ) بلکہ سماجی سائنسیات ( Social Sciences ) پر تحاریر پیش کر سکوں اور اس کے ساتھ ساتھ میرے تجربات و احساسات بھی آپ تک اسی صفحے کے زریعے پہنچتے رہیں گے۔

آغازِکلام

 آغازِکلام
سب سے پہلے خدا  کا شکر ہے کہ اس نے زندگی جیسی نعمت عطا کی، عقل و فہم سے نوازہ، اور آپ سے مخاطب ہونے کی توفیق دی۔

آج سے اپنے بلاگ کا باقاعدہ آغاز کرنے لگا ہوں جس کے لیے جناب "م بلال م" اور اس کے علاوہ جناب "محمد شاکر عزیز" کا بھی بہت احسان مند ہوں، کہ جن کی وجہ اردو بلاگ لکھنے کی ترغیب ملی۔ جو لوگ اردو میں بلاگ لکھنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب "اردو اور بلاگ" کا مطالعہ ضرور کریں۔جس سے نہ صرف آپکو بلاگنگ کے متعلق معلومات ملیں گی بلکہ اردو بلاگ لکھنے کیلیے مکمل معلومات بھی با آسانی حاصل کرسکیں گے۔


اردو زبان میں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی پر تو بہت سے اردو بلاگ نظر سے گزرے ہیں مگر کوئی بلاگ بنیادی سائنسی علوم حیاتیات، طبعیات، کیمیا، ریاضی پر معلومات اوردلچسب اور آسان فہم مضامین کے حوالے سے ابھی تک نظر میں نہیں آیا ہے۔اور تو اور خود کمپیوٹر سائنس کے بنیادی موضوعات ( کمپیوٹر پروگرامنگ، ڈیجیٹل لاجک وغیرہ ) پر بھی اردو میں معلومات کا یہی عالم ہے۔ اسی لیے میں اپنے بلاگ کے زریعے سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ 


پہلی تحریر کے لیے کچھ خاص اور منفرد پیش نہیں کر رہا ہوں، لیکن امید ہے کہ آئندہ تحریروں میں آپکو پختگی اور جدت دونوں خصوصیات یکجا میسر ہوں۔ اپنی آراء اور مشوروں سے ضرور نوازیے گا-
 پہلی تحریر پڑہنے کا شکریہ ۔۔۔