فلم ہٹ ہو گی یا فلاپ۔۔ پیش گوئی کرے گی مصنوہی ذہانت

فوکس سٹوڈیو نے مصنوہی ذہانت سے لیس ایسا سافٹ وئیر تیار کیا ہے جو کہ فلم کے ٹریلر سے اندازہ لگائےکا کہ فلم ہٹ ہو گی کہ فلاپ۔۔؟ امریکہ میں فلم انڈسٹری ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہےاور ہالی وڈ کی فلمیں دنیا بھر سے پیسے کماتی ہیں۔لیکن فلم انڈسٹری کیلئے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک  سال میں فلاپ ہونے والی فلموں کی تعداد ہٹ فلموں سے کہیں ذیادہ ہوتی ہے۔چنانچہ  فلم اسٹوڈیو مسلسل ایسی ٹیکنالوجی کی تلاش میں ہیں جو کہ فلم ریلیز سے پہلی پیش گوئی کر سکے کہ فلم صارفین میں مقبول ہو سکے گی کہ نہیں۔۔۔؟
اس سلسلے میں سینکڑوں ماڈل اور طریقہ کار وضع کیے جا چکے ہیں مگر اس میں سے کوئی بھی متواتر  قابل بھروسہ پیش گوئی  نہیں کر سکا ہے۔اسی لئے اب اس میدان میں مصنوہی ذہانت کو آزمایا جا رہا ہےجو کہ اےآئی (Artificial Intelligence )کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔

اس سلسلے میں فاکس سٹوڈیو کا بنایا گیا سسٹم پہلے سے ریلیزکیے گئے ہزاروں فلم ٹریلرز اور فلم ٹکٹ خریدنے والے شائقین کا آپس میں ڈیپ لرننگ کے زریعے  نیورل لنک بنائے گا۔یہ لنک فلم ٹریلر میں موجود بصری عناصر(Visual Elements)  کوفلم دیکھنے والے شائقین کی عمر، سکونت اور صنف کا آپس میں موازنہ کر نے کے بعد اپنا ڈیٹابیس تشکیل دے گا۔کسی بھی نئے ٹریلر کو دیکھنےکے بعد یہ  سافٹ وئیر اپنے ڈیٹابیس کو استعمال کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کر سکے گا کہ نئی فلم کو دیکھنے والوں کی عمر،سکونت یا جنس کیا ہو گی۔جس سے اسٹوڈیو انتظامیہ فلم بجٹ کے علاوہ ریلیز کیلئے اسکرینوں کی تعداد کا درست تعین کر سکی گی۔

علاوہ ازین اسی ٹیکنالوجی کےزریعے نئی فلموں کا ٹریلر ڈیزائن کرنے میں مدد بھی حاصل کی جا سکے گی۔سافٹ وئیر رزلٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا ٹریلر بنایا جائے گا جو کہ ذیادہ سے ذیادہ فلم شائقین کو متوجہ کر سکے۔
فاکس اسٹوڈیو کو امید ہے کہ جس طرح زندگی کے دیگر شعبہ جات میں مصنوعی ذہانت کا کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے کوئی بعید نہیں کہ سنیما انڈسٹری بھی مصنوہی ذہانت کی طاقت سے فائدہ حاصل کرسکے گی۔

الکیمی اور ہر دھات کو سونا بنانےکا جنون

ارسطو کے زمانے ہی میں مقدونیہ  کے مشہور فاتح سکندر اعظم نے فارس(ایران)کی عظیم سلطنت کو فتح کر لیاتھا ۔ اپنی فوجی مہم جوئی کے دوران یہ عظیم فاتح ہندوستان میں بھی داخل ہوا تھا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ  ہندوستان میں کسی سپائی کہ زہر میں بجھے تیر سے سکندراعظم زخمی ہوا اور بعد ازاں اسی زخم کی وجہ سے اس کی وفات ہوئی۔ 323 قبل مسیح میں اس کی وفات کے بعد ہی سکندر کی فتح کردہ سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی۔البتہ اس کے باوجود  اہل یونان وسطی ایشیاء کے بڑے حصوں پر حکمران رہے۔سکندر اعظم کی لشکر کشی جہاں جنگ و جدل کا بازار گرم رہا  وہیں  ایرانی ،ہندی،مصری  اور یونان جیسی مختلف تہذیبوں کا آپس میں ملاپ  ممکن ہو سکا۔

پچھلی قسط: ایٹم کا ابتدائی تصور

سکندر اعظم کے جرنیلوں میں سے ایک بطلیموس ( Ptolemy)نے مصر کی حکمرانی حاصل کی اور سکندر اعظم کے نام پر ایک نیا شہر سکندریہ  تعمیر کیا اور اسکو  ملک کا دارلحکومت بنایا۔اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نے یہاں ایک تحقیق و تعلیم کا  ایک عظیم و الشان ادارہ قائم کیا جسے ہم آجکل کی  یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کی مانند قرار دے سکتے ہیں۔اسی سے متصل قدیم دور کی سب سے بڑی لائبریری بھی تعمیر کی گئی  ،جہاں اہل علم کے لئے لاکھوں  کتب کاذخیرہ موجود تھا۔

اسکندریا اور الکیمیاء

اسکندریہ   میں  یونانیوں  کی نظریاتی  اور اہل مصر کی کیمیاء میں عملی  و فنی مہارت کو  آپس مدغم ہونے کاموقع ملا۔اہل مصرعملی طور پر بہت سے کیمیائی طریقوں سے واقف تھے  گو کہ انکا علم اور مہارتیں مذہبی پیشواؤں اور بادشاہوں کے  مردوں حنوط کرنے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی تک  محدود تھا۔ ان کے عقیدوں کے مطابق یہ سارا علم دیوتاؤں کی نوازشوں کا نتیجہ تھا۔مصریوں کی  مہارتوں کو دیکھ کر  اہل یونان انکی  علمی و فنی برتری سے مرغوب ہوئےاورانکے دیوتاؤں سے منسوب داستانوں  اور ان سے جڑی  خصوصیات کو یونانی  متھالوجی میں موجود دیوتا ہرمس سے ملتا جلتا پا کر  ان عقیدوں  کو بھی اپنے  ساتھ جمع کر لیا۔یوں ااسکندریہ میں ان دو تہذیبوں کے ملاپ سے علم کیمیاء میں اضافہ و ترقی دیکھنے میں آئی۔
چونکہ علم کیمیاء پر مصری کے مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری تھی اس لئے عام لوگوں کے نزدیک یہ لوگ چونکہ  مختلف مادوں کی ہئیت تبدیل کرنے کے مخفی علم سے واقف تھے۔اسی وجہ سے انکی جادوگر ی اور خفیہ طاقتوں  کے کئی قصے مقبول کہانیوں کا حصہ بن گئے ۔ اپنی علمی برتری اور طاقتوں کے زعم میں یہ لوگ الکیمیاء کے علم کو خفیہ  اور پراسرار علامتوں  کی شکل میں محفوظ کرنے لگے جس سے کیمیاء  کوایک طاقتور اور پراسرار علم سمجھا جانے لگا۔
اس کے ساتھ دو نقصات ہوئے ایک تو اہل علم کے مابین معلمومات کا تبادلہ ختم ہوا اور دوسرا کوئی بھی شخص پراسراری کا لبادہ اوڑھ کر خود کو کیمیاء کاعالم کہلوا لیتا۔

سات سیارے سات دھاتیں 

الکیمی اور پراسرار خاکے
مثلاً اس وقت آسمان پر 7 سیاروں کی نشاندہی ہو چکی تھی اور انسان سات ہی دھاتوں (سونا، چاندی، تانبا،قلعی،لوہا سیسہ اور پارہ)سے واقف تھے۔ یوں سماوی اور ارضی اجسام میں تعلق پیدا کرنے کیلئے ہر سیارے کی نسبت ایک دھات کے ساتھ کر دی گئی۔ مثال کے طور پر سورج کو سونے، چاند کو چاندی اور تانبے کو زہرا  کے ساتھ ملایا گیا۔ یہ نسبتیں چونکہ مکمل طور خیالی تھیں اس لئے آج پراسرار علوم کی کتب کےسوا سائنس میں انکا استعمال مفتود ہو چکا ہے۔

الکیمی اور سونا

اسی دور میں ایک کیمیاء دان بلوس مندس نے اپنی ساری عمر ایک دھات کو دوسری دھات اور خاص کر سونے میں بدلنے کیلئے ساری عمر صرف کر دی۔چونکہ تب عام خیال یہ تھا کہ اگرچاروں عناصر ہوا،پانی ،آگ اورمٹی ایک سے دوسری شکل میں تبدیل ہو سکتے ہیں ؛پانی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوتا ہے پھر بارش کے دوران دوبارہ پانی بن جاتا ہے،لکڑ جلنے کےدوران آگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور اگر سرخ پگھلی ہوئی کچ دھات سے لوہا بن سکتی ہے اور بالکل اسی طرح کسی بھی  دھات کو سونے میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

یوں 100قبل از مسیح کے بعد علم کیمیاء میں کوئی بھی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی اور آنے والے کئی صدیوں تک  الکیمی کےماہرین دوسری دھاتوں کو سونا بنانے کیلئےبے سود تجربات کرتے رہے۔یہاں تک کہ یورپ تاریک دور سے گزرنے لگا ۔اس دور میں مسلمانوں نے اہل یونان کی کتب کا عربی میں تراجم کیے اور اسکے بعد یونانی نظریات، ریاضی،فلسفہ ،طب اور بالخصوص کیمیاء میں نیا اضافہ کیا۔(جاری ہے)

کیمیاء کی تاریخ پر گذشتہ تحاریریہاں ملاحضہ کریں۔

بابل کا امیر ترین آدمی۔۔۔ غربت سے امارات کا سفر


بابل کا امیر ترین آدمی ایک امریکی بیسٹ سیلر کتاب ہے  ۔ اس  کتاب کے مصنف جارج کلیسن ہیں ۔یہ کتاب ایک داستان کی طرز میں لکھی گئی ہے۔اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک عام مزدور  کچھ سادہ اصولوں کو اپناتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ  بابل کا امیر ترین شخص بن  جاتا ہے۔ ۔اگرچہ یہ کتاب 1926 کو شائع ہوئی ۔لیکن اس میں شامل اسباق آج بھی اتنی ہے اہمیت رکھتے ہیں۔اسی لئے تقریباً ایک صدی گزرنے کے بعد بھی  اس کی مقبولیت وافادیت دن بدن بڑھتی رہی ہے۔اس کتاب کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے ۔کہا جاتا ہے کہ معاشی آسودگی کا خواب دیکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے ۔ لیکن اگر آپ ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھ سکے تو آئیے  اس کتاب میں شامل اہم ترین اصولوں سے آپ کو روشناس کراتے ہیں۔

آپ غربت سے امارت کا سفر تہہ کرنا چاہتے ہیں ۔جان لیجیے کہ راتوں رات ایسا نہیں ہو سکتا۔چے جائے کہ  راہ چلتے چلتے  آپ کے ہاتھ قارون کے خزانے کی چابی آ جائے ۔آپ کی لاٹری لگ جائے یا تو کوئی ایسی نوکری مل جائے جو  آپ  کوفوراً مالا مالا کر دے۔لیکن اگر ایسا کچھ آپ کے ساتھ ہو چکا ہوتا ہو ابھی آپ کو یہ مضمون پڑھنے کے ضرورت نہ ہوتی۔

اب سوال یہ ہے کہ   دولت کی چڑیا کو قید کرنےکا کوئی متبادل و قابل عمل طریقہ بھی ہے یا نہیں؟ یہی وہ ملین ڈالر سوال کا جواب یہ کتاب دینے کی کوشش کرتی ہے ،آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔۔!

 پہلے اپنے آپ کو معاوضہ دیں۔۔۔

اگر آپ امیر ہونا چاہتے ہیں تو اس وقت آپ جتنی بھی پیسے کما رہے ہیں ۔ان کا دسواں حصہ نکال کر سب سے پہلے "اپنے آپ کو معاوضہ دیں"۔باقی ماندہ رقم  جیسے چاہے خرچ کریں ۔ فرض کیاکہ ایک مزدور ہے۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ہے ۔دن بھر محنت کرنے کے  بعدوہ  صرف 500 روپے کما سکا ہے ۔ اب اگر وہ اس غربت سے چھٹکارہ چاہتا ہے تو اس لازمی اپنی  کمائی  سے 50 روپے  سب سے پہلے اپنےآپ کو ادا کرنے ہیں ۔ باقی 450 سے وہ اپنے دن بھر کے اخراجات چلا سکتا ہے۔

یقیناً کچھ لوگ سوال کریں گے کہ آج کی مہنگائی میں ہم ایک مزدور کو جو کہ کما ہی 500 رہا ہے صرف 50 روپے کی بچت کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ اس کی زندگی پہلے ہی  آسان نہیں  ،ہم  اسکی آمدن کے دسویں حصے سے بھی محروم  کر   رہے ہیں ۔یاد رکھیئے  کہ اس مزدور نے  اپنے اخراجات کی ادائیگی میں 50 کی بچت کرنے کی ذہنیت نہیں اپنانی۔بلکہ پہلے  اس نے اپنی کمائی سے 50 روپے الگ کرنے ہیں ۔  پھر باقی بچنے والی رقم کے مطابق  اپنا خرچہ چلانا ہے۔

یقیناً آپ سوچیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ ایک مزدور کما ہی 500 رہا ہے ۔دن بھر مشقت بھی کر رہا ہے۔اگر وہ یہ  رقم بھی پوری خرچ نہ کرے تو وہ اور بھی غریب تر ہو جائے گا۔ تو بھائی صاحب  اسی ذہنیت کو ہی تو بدلنا  ہے کہ جو کمایا خرچ کیا،مزید کمایا تو  خرچ اور بڑھا دیا۔اگر یہ بے چارہ مزدور اپنی آمدنی سے کچھ بچائے گا نہیں تو جس دن اسکی مزدوری نہ لگی ، اس دن پھر کیا کرے گا؟ یا تو وہ ادھار مانگ لے،یا پھر بھوکاسو جائے۔

ایک دہاڑی دھار مزدور کی بات تو چھوڑیئے ،ہمارے ایک چچا ہیں۔سرکاری ملازم ہیں۔ہر سال ان کی تنخواہ میں دو اضافے ہوتے ہیں۔ایک بجٹ کے موقع پر ۔دوسراہرعیسوی سال کے آخر میں۔ اس  کے باوجود میں انکا یہ حال ہےکہ ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں ادھار مانگ مانگ کر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔یعنی ادھرانکی تنخواہ بڑھی نہیں ادھر پہلے ہی خرچے بڑھ گئے۔آمدن بڑھنےکے باوجود، ہر مہینے کے آخر میں بٹوہ خالی ہی رہ جاتا ہے۔

اس لئے اگر آپنےاپنی مالی حالت بدلنی ہے تو ہر ماہ(یا دن) کے بعد آپ کی جو بھی آمدن ہوخرچ کرنے سے پہلے  اس کمائی کا دسواں حصہ باقاعدگی سے الگ کر لیں۔باقی بچ جانے والی رقم آپ خرچ کر سکتے ہیں۔اس طرح سے کچھ عرصہ میں آپ کے پاس ایک معقول رقم جمع ہو جائے گے۔

پیسے کو اپنا غلام بنائیں:

اب جو کہ پیسے آپ نے بچا لئے ہیں وہ اس لئے ہر گز نہیں کہ آپ چھٹیوں میں تفریح کرنےچلے جائیں۔نیا اور مہنگا آئی فون یا گلیکسی خریدنے کی حماقت بھی نہیں کرنی۔

اس رقم سے آپ نے دولت کے حصول  کیلئے اگلا قدم اٹھانا ہے ۔ سوچ بچار کے بعد اپنی رقم کو کسی ایسی جگہ لگانا ہے جہاں سے آپکے لئے مزید آمدنی پیدا کرنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔یعنی ایک مزدور/کسان ان روپوں سے کوئی گائے بکری سکتا ہے۔ایک ملازم پیشہ شخص اوبر/کریم کیلئے گاڑی خرید سکتا ہے۔سٹاک مارکیٹ /قومی بچت کی سکیموں میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔اورذیادہ  نہیں آپ کم از کم ایک فوڈ سٹال ہی لگا  سکتے ہیں جو آپکے لئے اضافی آمدنی کا زریعہ پیدا کر سکتا ہے۔یہ طریقے صرف مثال کے طور پر بیان کیےہیں ورنہ تو ہمارے ارد گرد آمدنی پیدا کرنے کے لامحدود مواقع موجود وہوتے ہیں۔بات صرف کچھ  " نیا سوچنے" اورپھر "عملی قدم "اٹھانے کی ہے۔

فرض کریں  کہ  آپ نے یہ دوسرا قدم بھی اٹھا لیا ہے تو پھر آپ نے صارف کی بجائے سرمایہ کار بننے کیلئے اڑان بھر لی ہے۔اب آپ نے یہ سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ معقول بچت جمع ہو جانے کے بعد اس کے کاروبار/سرمایا کاری کرنے ہے۔ایک دن جب  ان دیگر زرائع سے بھی ایک معقول آمدن ہونے لگے گی تو پھر آپ کو پیسوں کیلئے کام نہیں کرنا پڑھے گا بلکہ اب پیسہ آپ کیلئے کا م کرنے لگ جائے گا۔یہ بات اگر سمجھ آ گئی تو پھر یقیناً  فوراً تو نہیں مگر بتدریج آپ کے دن ضرور بدلیں گے۔صرف سوچ بدلنے اور عملی قدم اٹھانے کی دیر ہے۔

یہ دو اسباق اس کتاب کی تلخیص ہیں، اگر آپ مکمل کتاب پڑھیں گےتو یقیناً اس کے علاوہ اور بھی بہت سیکھنے کیلیے موجود ہے۔