ایٹم کا ابتدائی تصور

ایٹم کا ابتدائی تصور:(قسط    :4)

یونانی فلاسفروں کے نزدیک ایک اور اہم سوال ،مادے کی انتہائی مختصر سطح پر تقسیم درتقسیم سے متعلق تھا۔اگر ایک پتھر کے دو ٹکڑے کیے جائیں یا پھر کوٹ کر پاؤڈر بھی بنا دیا جائے تو ہر ٹکڑا پھر بھی پتھر ہی ہو گا، حتی کہ اسے مزید تقسیم در تقسیم کیا جائے۔کیا مادے کی یہ تقسیم در تقسیم لا محدود حد تک جاری رہے گی؟یا بلاآخر ایک بنیادی ذرے تک پہنچ کر رک جائے گی۔
اس سوال کے جواب میںIonian Leucippus (دورزمانہ450قبل مسیح) نے سب سے پہلے قدرتی طور پہ ذہن میں آنے والا خیال بیان کیا  کہ مادے کا ہر ٹکڑا چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اسے مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔حتٰی کہ ایک ایسے ٹکڑے تک پہنچ جائیں جو کہ اتنا باریک ہو گا کہ اسے مزید چھوٹے ٹکڑے میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
دیموکیریٹس (Democitus)نے انہی خطوط پر سوچنا جاری رکھا،اور اس نے آخری ناقابل ِتقسیم زرے کو اٹاموس(atomos)کا نام دیا ،جسکا مطلب ناقابل تقسیم کے ہیں اور اسی سے ہی آج کا لفظ ایٹم اخذ کیا گیا ہے۔یہ اعتقاد کہ مادہ ایسےانتہائی باریک ذرات سے مل کر بنا ہے ،جو کہ مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا،اٹامزم (Atomism)کہلاتا ہے۔
ایٹم کا بنیادی خاکہ
اس  نظریہ میں ڈیموکریٹس نے کہا کہ ہر عنصر کے ایٹم مختلف سائز اور ساخت رکھتے ہیں؛اسی انفرادیت کے باعث مختلف عناصر  ایک دوسرے سے  مختلف خصوصیات رکھتے ہیں۔مختلف طرح کے اشیاء جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں یا ہمارے زیر استعمال ہیں مختلف عناصر کے ایٹموں کا آمیزہ ہوتی ہیں،اوراس آمیزے کے اجزائے ترکیبی بدل کر کسی ایک چیز کودوسری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ سب تصورات آج ہمیں بہت جدید محسوس ہوتے ہیں۔دیموکیرٹس کے پاس اپنے نظریات کی تائید کیلئے کوئی بھی تجربہ نہیں موجود تھا۔(یونانی فلسفی تجربات کی بجائے ،نتائج کو پہلے سےبیان شدہ اصولوں سے اخذ کیا کرتے تھے۔)
لیکن دوسرے فلسفیوں اور خاص کر ارسطو کویہ نظریہ کہ: مادہ کا ایک ایسا ٹکڑا جو کہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نا کیا جاسکے،خلاف ِقیاس لگا کہ انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔اس لئے ایٹمی تصور دیمرقس کی دو ہزار سال بعد تک غیر معروف رہا اور اس پر کبھی کبھار ہی بحث کی گئی۔
مگر یونانی فلسفی ایپقرس نے اپنے ایٹمی تصور کو اپنے افکار اور تعلیمات کا حصہ بنایا، آئندہ دور میں بہت سے اس کے معتقدین نے اس نظریئے کو زندہ رکھا۔انہی میں سے ایک معتقدرومی شاعر لوکرٹس قارس بھی شامل  تھا  جس نے 'اشیاء کی حقیقت 'نامی ایک منطوم نظم لکھی ،جس میں شاعری کے ذریعے ایٹم کے تصور کو سکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس لیے اگرچہ اہل یونان تو نے دیمرقس اور ایپیقرس کے فلسفیانہ اقوال ہی یاد رکھے ،لوکرٹس کی نظم ادب میں زندہ رہی اور اپنے ساتھ ایٹم کے  تصور کو اپنے ساتھ جدید دور تک لے آئی۔جہاں اسی تصور کو نئے سائنسی طریقہ کارکے ذریعے متعارف کرایاگیاپھر اس نظریہ کو آخرکافتح نصیب ہوئی، اور آج ہم بہتر طور پر ایٹم سے واقف ہیں، جن کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔

No comments:

Post a Comment