حرکت کے قدیم نظریات۔۔۔ کچھ وضاحتیں

پچھلی پوسٹ میں ہم نے اہم یونان کے نظریہ حرکت کو بیان کیا تھا۔اب اسی نظریہ پر مزید بحث پیش کی جارہی ہے۔
"بنیادی جگہ" کا نظریہ یونانیوں کو مفید لگا۔۔۔اگر اس کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ہر عنصر جسے بنیادی جگہ سے دور کیا جائے؛جیسا کہ اگر ایک پتھر کو زمین کی سطح سے بلند کیا جائے تو وہ جلد از جلد اپنی بنیادی جگہ پلٹنےکی کوشش کرے گا،اس کوشش کو ہم پتھر کے وزن کی صورت میں محسوس کر سکتے ہیں اور یہی وجہ پتھر کے وزن کا سبب ہے۔اس طرح ہم یہ وضاحت کی جا سکتی ہے کہ ہوا کے شعلے ہوا میں اوپر کیوں اٹھتے ہیں؟یا پانی کے اندر پتھر نیچے کیوں ڈوب جاتے ہیں اور ہوا کے بلبلے اس کے برعکس پانی کی تہہ سے سطح آب پر کیوں آتے ہیں؟(یقینی طور پر وہ اپنی بنیادی جگہ واپس جانا چاہییں گے اور اس لیے وہ اپنی بنیادی جگہ جانا چاہیئں گے۔)
یوں ہم بارش کے قطروں کے زمین پر گرنے کی وضاحت بھی کر سکتے ہیں:دن میں سورج کی تپش سے بخارات بنتے ہیں(یونانی کی سوچ کے لحاظ سے پانی "ہوا" کی صورت اختیار کر لیتا ہے)،تو وہ اپنی بنیادی جگہ تلاش میں اوپر اٹھتا جاتا ہے،مگر جیسے ہی بخارات پانی میں تبدیل ہوتے ہیں تو دوبارہ اپنی بنیادی جگہ کی تلاش میں واپس سطح زمین پر کھچے چلےآتے ہیں۔
بنیادی جگہ کے نظرئیے سے اس کے علاوہ مزید نتائج بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔مثلاً ایک جسم کسی دوسرے کی نسبت بھاری ہو توبھاری جسم ہلکے کی نسبت ذیادہ تیزی سے اپنی بنیادی جگہ پلٹنے کی کوشش کرے گا۔اس لئے بھاری وزن اٹھانا مشکل اور ہلکا وزن اٹھانا آسان ہوتا ہےاور اگر ہم دونوں اوزان کو بیک وقت گرائیں توبھاری جسم ذیادہ تیزی سے بنیادی جگہ پلٹے گا۔اس لئے ارسطو نے خیال کیا اور یہی ہمارا مشاہدہ بھی ہے کہ پرندوں کے پر اور پرف کے گالے آہستہ جبکہ اینٹیں اور پتھر بہت تیزی سے زمین پر گرتے ہیں۔
تاہم مندرجہ بالا یونانی نظریہ ان حالات میں بھی حرکت کی درست وضاحت کرتا ہے جب ارادتاً پیچیدگی پیدا کر دی جائے۔مثلاً اگر ہم اپنے بازو سے بیرونی قوت لگا کر ایک پتھر کو ہوا میں اوپر پھینک کر اسکی بنیادی جگہ سے دور کر دیں تووہ یکدم بنیادی جگہ واپس آنے کی بجائے پہلے اوپر اٹھے گا اور پھر نیچے آئے گاحالانکہ کہ بیرونی قوت تو صرف اوپر پھینکنے کے فوراً بعد ختم ہو جاتی ہےاور پتھر کو نہیں پہنچ رہی ہوتی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پتھر کیوں فوراً ہی نہیں پلٹا ؟اور یہ اتنی بلندی تک کیوں اٹھتا چلا گیا؟
ارسطو نے اسکا جواب کچھ یوں دیا کہ بازو سے لگائی گئی قوت ہوا میں منتقل ہوئی اور پھر ہوا پتھر کو اڑا کر بلندی تک لے گئی۔تاہم ہر لمحہ یہ قوت کمزور ہوتی جاتی ہے اسکے برعکس پتھر کی بنیادی جگہ پلٹنے کی طاقت بڑھتی جاتی ہے،حتٰی کہ اونچائی کی طرف حرکت بلکل رک جاتی ہے اور پتھر واپس زمیں کی جانب گرنا شروع کر دیتا ہےاور اپنی بنیادی جگہ پہنچ کر ساکن ہو جاتا ہے۔مزید یہ کہ بازو غلیل یا کمان سے لگائی گئی یہ قوت کبھی اتنی زیادہ نہیں بڑھ سکتی کہ کسی پتھر کی بنیادی جگہ آنے کی قوت پر غالب آ جائے۔یعنی ہوا میں پھینکی گئی ہر چیز زمیں پر واپس پلٹے گی۔(ہم عام طور پر یہی خیال کرتے ہیں۔)
پس ہم یہ نتیجہ حاصل ہو کہ "بیرونی قوت سے دی گئی حرکت "(جو نبیادی جگہ سے دور لے جائے)پر "بنیادی جگہ سے قریب لانے والی حرکت" غالب آ جائے گی اور جسم ہر صورت پر واپس اپنی بنیادی جگہ واپس پہنچے گا۔چونکہ بنیادی جگہ سےمزید کہیں اور نہیں جا سکتا اس لئے اپنی حرکت ختم کر کے حالت سکون میں آ جائے گا۔اس لئے حالت سکون اشیاء کی قدرتی حالت ہے۔
ہمارے روز مرہ مشاہدات سے بھی یہ ثابت ہے کہ:ہوا میں اوپر پھینکے ہوئے اجسام واپس زمین پر پلٹتے ہیں؛ااور حتٰی کہ زندہ اجسام بھی آخرکار حالت سکون میں آ جاتے ہیں۔جب ہم کسی پہاڑی پر بلندی کی طرف چڑتے ہیں تو قدرتی حرکت پر قابو پانے کیلئے ہمارے پٹھے مسلسل قوت لگاتے ہیں جس سے ہمیں تھکن کا احساس ہوتا ہے اور وقفے وقفے سے رک رک کر آرام کرنا پڑھتا ہے۔ہلکی سے ہلکی حرکت کیلئے بھی ہمارے پٹھوں کو توانائی خرچ کرنی پڑھتی ہے،یہاں تک کہ تمام قوت ختم ہو جانےپر زندہ جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے،یوں وہ ہمیشہ کیلئے حالت سکون میں آجاتا ہے۔
یہاں تو ٹھیک ہے لیکن آسمانی اجسام کے بارے میں کیا کہیں گے؟اجسام فلکی کی حرکت زمینی اجسام سے بہت مختلف ہے۔زمینی اشیاء کی قدرتی حرکت اوپر یا نیچے کی جانب ہوتی ہےجبکہ اجسام فلکی نہ اوپر جاتے ہیں نا نیچے بلکہ ایک مرکز کے گرد دائرے میں حرکت کر تے نظر آتے ہیں۔
اب ان کی حرکت کی انوکھی حرکت کی وضاحت کیلئے ارسطو کو مزید ایک مفروضہ قائم کرنا پڑاکہ فلکی اجسام ایک ایسے عنصر سے بنے ہیں جو نہ "آگ،ہوا،پانی اورمٹی"کے علاوہ پانچواں عنصر ہے۔اس عنصر کو 'ایتھر' کہا گیا۔یونانی میں ایتھر کے معنٰی 'اڑتے رہنا'کے ہیں۔جو کہ فلکی اجسام کی مسلسل حرکت کی وجہ سے رکھا گیا۔
اس پانچویں عنصر کی بنیادی جگہ عنصر آگ کے دائرے کی بیرونی سطح کے باہر تھی۔مگر یہاں ایک مزید سوال اٹھتا ہے کہ :اگر فلکی اجسام اپنی قدرتی جگہ موجود ہیں تو پھر یہ ساکن کیوں نہیں؟۔۔۔(کچھ یونانی لوگ اسکا جواب شاید یوں دیتے کہ اجسام فلکی کو دیو یا جنات ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔)لیکن ارسطو نے ایسی کسی دلیل کو قبول نہیں کیا تھا۔اس لیے اسے پھر مزید مفروضہ قائم کرنا پڑا کہ:فلکی اجسام کے قوانین حرکت زمینی اجسام سے جدا ہیں۔زمینی اجسام کی قدرتی حالت سکون جبکہ فلکی اجسام کی قدرتی حالت دائروی حرکت ہے۔ساتھ ہی یہ کہ  آسمانی اجسام زمینی عناصر کی بجائے ایک  باکل خالص اور بے عیب مادے ایتھر سے بنے ہوئے ہیں۔

No comments:

Post a Comment