اور اب گوگل روبوٹس بھی

 گوگل نے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے آپ کو مارکیٹ لیڈربرقرار رکھنے کیلئے نئے اور اچھوتے منصوبوں پر کام جاری رکھا ہوا ہے۔ان میں سے ایک گوگل کار  کا منصونہ ہے، جو کہ بغیر ڈرائیور کے خود کار انداز میں چلنے کے قابل ہوگی مگر گو گل نے یہیں پہ بس نہیں کی بلکہ اب گوگل روبوٹکس کے میدان میں بھی قسمت آزمائی کیلئے تیار ہے۔

گوگل جو اپنے سرچ انجن اور آنلائن سروسز کے حوالے سے اجارہ داری اورعا لمگیر شہرت رکھتا ہے،آہستہ آہستہ ہارڈ وئیر کے میدان میں بھی اپنے قدم مظبوط کر ر                                          ہا ہے۔
سرچ انجن کے علاوہ گوگل کی اضافی مصنوعات میں اوپن سورس موبائل آپریٹنگ سسٹم اینڈرائڈ،ویب بیس کروم آپریٹنگ سسٹم کروم ، کروم براؤزر، نیکس 6 اور اس لائن سے ملحقہ اسمارٹ فون ،نیکسس 7 ، 10اور امسال پیش کی جانے والی نیکس 9 ٹیبلٹ اور مستقبل قریب متعارف کئے جانےوالی گوگل گلاس شامل ہیں، کمپنی کی یہ مصنوعات  ہر طرح الگ جہت میں کام کرتی ہیں۔

گوگل روبوٹ:
گوگل کے روٹس سے متعلقہ  روپوٹس کے  بارے میں گوگل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس گوگل نے کئی روبوٹ ساز اداروں کی خریداری کی ہے اوراب گوگل روبوٹ کی ڈویلپمنٹ کیلئے سٹاف کی ہائرنگ بھی کی جا چکی ہے۔گوگل کی طرف سے اس منصوبے کا نگران اینڈی روبن کو بنایا گیا ہے۔ جی ہاں !وہی اینڈی روبن جو کہ اینڈرائڈ او ایس کو انتہائی کامیابی سے پائہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں۔مگر تا دست گوگل کی جانب سے روبوٹ کے مقاصد ، ڈیزائن اور استعمال کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔
گوگل روبوٹ کے منصوبے سے روبوٹکس کے میدان میں پیشرفت میں بہت تیزی آجائے گی۔
کچھ ماہ پہلے نیویارک ٹائمز میں شامل ایک رپورٹ کے مطابق ان روبوٹس سے گوگل کی تیار کردہ اشیاء کی صارفین تک فراہمی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے،چونکہ حال ہی میں گوگل نے امریکہ کے چند شہروں میں اسی دن آنلائن خریدی گئی اشیاء کی فراہمی کی سروس بھی شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ گوگل ان روبوٹس کو اپنے دوسرے منصوبے گوگل کار کی ساتھ بھی یکجا کر سکتا ہے۔اس وجہ سے گوگل روبوٹ اور ایمزون کے ڈرون ائیر پروجیکٹ میں بھی مسابقت کا آغازہو گیا ہے،جس میں ایمزون آنلائن خریدی گئی اشیاء ڈرون کے ذریعے صارفین تک تیز ترین ترسیل کے لئے ڈرون طیارے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مگر گوگل کا کہنا ہے کہ نیویارک ٹائم کی یہ روپورٹ اور گوگل روبوٹ کے استعمالات کے بارے میں لکھی گئی باتیں مصنف کے اپنے ادراک اور کچھ لوگوں کے انٹرویو سے حاصل شدہ خیالات ہیں۔ لیکن ایک اور ماہر جو کہ انڈنبرگ یونیورسٹی میں روبوٹکس لیب کے انچارج بھی ہیں کا کہنا ہے کہ" روبوٹکس میں حرکات کنٹرول اور سنسررٹیکنالوجی پر بہت پیش رفت ہو چکی ہے :اور گوگل جیسے بڑھے نام کی اس میدان میں آمد سے دوسرے پس پشت عوامل یعنی روبوٹ سافٹ وئیر ،میعارات اور ماڈیولر ڈیزائن کے شعبوں میں بھی ترقی کی رفتار بڑھ جائے گی"۔
گوگل اپنے روبوٹکس پروجیکٹ کا ایک دفتر جاپان میں بھی کھولے گا ۔سردست جاپان کو روبوٹ ٹیکنالوجی میں باقی دنیا پر سبقت حاصل ہے۔اینڈی روبن کا ایک انٹر ویو میں کہنا تھا کہ اس منصوبے سے 10 سال کے عرصے میں تجارتی فوائد حاصل ہونا شروع ہو نگے۔ہمارے پاس مختلف ماہرین موجود ہیں ہارڈوئیر ،سافٹ وئیر کیساتھ روبوٹکس سسٹم کی تیاری پر کام کر رہے ہیں"۔

ساتھ ہی گوگل نے آکسفرڈ یونیورسٹی کے مصنوئی ذہانت (Artificial Intelligence)کے شعبے سے بھی ذہین اور انسانوں کی طرح روبوٹ بنانے کیلئے اشتراک کیا ہے۔جن میں ایک تو  روبوٹس کی نقل و حرکت کوجدید اور درست بنانے کیلئے کام کیا جائے گا بلکہ ساتھ ہی وژیول ریکگنیشن (Visual Recognition)یعنی بصری شناخت کے نظاموں کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ 


No comments:

Post a Comment