الکیمی اور ہر دھات کو سونا بنانےکا جنون

ارسطو کے زمانے ہی میں مقدونیہ  کے مشہور فاتح سکندر اعظم نے فارس(ایران)کی عظیم سلطنت کو فتح کر لیاتھا ۔ اپنی فوجی مہم جوئی کے دوران یہ عظیم فاتح ہندوستان میں بھی داخل ہوا تھا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ  ہندوستان میں کسی سپائی کہ زہر میں بجھے تیر سے سکندراعظم زخمی ہوا اور بعد ازاں اسی زخم کی وجہ سے اس کی وفات ہوئی۔ 323 قبل مسیح میں اس کی وفات کے بعد ہی سکندر کی فتح کردہ سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی۔البتہ اس کے باوجود  اہل یونان وسطی ایشیاء کے بڑے حصوں پر حکمران رہے۔سکندر اعظم کی لشکر کشی جہاں جنگ و جدل کا بازار گرم رہا  وہیں  ایرانی ،ہندی،مصری  اور یونان جیسی مختلف تہذیبوں کا آپس میں ملاپ  ممکن ہو سکا۔

پچھلی قسط: ایٹم کا ابتدائی تصور

سکندر اعظم کے جرنیلوں میں سے ایک بطلیموس ( Ptolemy)نے مصر کی حکمرانی حاصل کی اور سکندر اعظم کے نام پر ایک نیا شہر سکندریہ  تعمیر کیا اور اسکو  ملک کا دارلحکومت بنایا۔اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نے یہاں ایک تحقیق و تعلیم کا  ایک عظیم و الشان ادارہ قائم کیا جسے ہم آجکل کی  یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کی مانند قرار دے سکتے ہیں۔اسی سے متصل قدیم دور کی سب سے بڑی لائبریری بھی تعمیر کی گئی  ،جہاں اہل علم کے لئے لاکھوں  کتب کاذخیرہ موجود تھا۔

اسکندریا اور الکیمیاء

اسکندریہ   میں  یونانیوں  کی نظریاتی  اور اہل مصر کی کیمیاء میں عملی  و فنی مہارت کو  آپس مدغم ہونے کاموقع ملا۔اہل مصرعملی طور پر بہت سے کیمیائی طریقوں سے واقف تھے  گو کہ انکا علم اور مہارتیں مذہبی پیشواؤں اور بادشاہوں کے  مردوں حنوط کرنے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی تک  محدود تھا۔ ان کے عقیدوں کے مطابق یہ سارا علم دیوتاؤں کی نوازشوں کا نتیجہ تھا۔مصریوں کی  مہارتوں کو دیکھ کر  اہل یونان انکی  علمی و فنی برتری سے مرغوب ہوئےاورانکے دیوتاؤں سے منسوب داستانوں  اور ان سے جڑی  خصوصیات کو یونانی  متھالوجی میں موجود دیوتا ہرمس سے ملتا جلتا پا کر  ان عقیدوں  کو بھی اپنے  ساتھ جمع کر لیا۔یوں ااسکندریہ میں ان دو تہذیبوں کے ملاپ سے علم کیمیاء میں اضافہ و ترقی دیکھنے میں آئی۔
چونکہ علم کیمیاء پر مصری کے مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری تھی اس لئے عام لوگوں کے نزدیک یہ لوگ چونکہ  مختلف مادوں کی ہئیت تبدیل کرنے کے مخفی علم سے واقف تھے۔اسی وجہ سے انکی جادوگر ی اور خفیہ طاقتوں  کے کئی قصے مقبول کہانیوں کا حصہ بن گئے ۔ اپنی علمی برتری اور طاقتوں کے زعم میں یہ لوگ الکیمیاء کے علم کو خفیہ  اور پراسرار علامتوں  کی شکل میں محفوظ کرنے لگے جس سے کیمیاء  کوایک طاقتور اور پراسرار علم سمجھا جانے لگا۔
اس کے ساتھ دو نقصات ہوئے ایک تو اہل علم کے مابین معلمومات کا تبادلہ ختم ہوا اور دوسرا کوئی بھی شخص پراسراری کا لبادہ اوڑھ کر خود کو کیمیاء کاعالم کہلوا لیتا۔

سات سیارے سات دھاتیں 

الکیمی اور پراسرار خاکے
مثلاً اس وقت آسمان پر 7 سیاروں کی نشاندہی ہو چکی تھی اور انسان سات ہی دھاتوں (سونا، چاندی، تانبا،قلعی،لوہا سیسہ اور پارہ)سے واقف تھے۔ یوں سماوی اور ارضی اجسام میں تعلق پیدا کرنے کیلئے ہر سیارے کی نسبت ایک دھات کے ساتھ کر دی گئی۔ مثال کے طور پر سورج کو سونے، چاند کو چاندی اور تانبے کو زہرا  کے ساتھ ملایا گیا۔ یہ نسبتیں چونکہ مکمل طور خیالی تھیں اس لئے آج پراسرار علوم کی کتب کےسوا سائنس میں انکا استعمال مفتود ہو چکا ہے۔

الکیمی اور سونا

اسی دور میں ایک کیمیاء دان بلوس مندس نے اپنی ساری عمر ایک دھات کو دوسری دھات اور خاص کر سونے میں بدلنے کیلئے ساری عمر صرف کر دی۔چونکہ تب عام خیال یہ تھا کہ اگرچاروں عناصر ہوا،پانی ،آگ اورمٹی ایک سے دوسری شکل میں تبدیل ہو سکتے ہیں ؛پانی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوتا ہے پھر بارش کے دوران دوبارہ پانی بن جاتا ہے،لکڑ جلنے کےدوران آگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور اگر سرخ پگھلی ہوئی کچ دھات سے لوہا بن سکتی ہے اور بالکل اسی طرح کسی بھی  دھات کو سونے میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

یوں 100قبل از مسیح کے بعد علم کیمیاء میں کوئی بھی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی اور آنے والے کئی صدیوں تک  الکیمی کےماہرین دوسری دھاتوں کو سونا بنانے کیلئےبے سود تجربات کرتے رہے۔یہاں تک کہ یورپ تاریک دور سے گزرنے لگا ۔اس دور میں مسلمانوں نے اہل یونان کی کتب کا عربی میں تراجم کیے اور اسکے بعد یونانی نظریات، ریاضی،فلسفہ ،طب اور بالخصوص کیمیاء میں نیا اضافہ کیا۔(جاری ہے)

کیمیاء کی تاریخ پر گذشتہ تحاریریہاں ملاحضہ کریں۔

No comments:

Post a Comment