آئن
سٹائن کو بلاشبہ ہم جدید طبیعات کا بہترین
دماغ گردانتے ہیں اور یقیناً سچ بھی یہی
ہے۔ لیکن 1905
سے
پہلے شاید ہی طبیعات داں طبقے میں کوئی
یہ سوچ سکتا تھا کہ وہ طالب علم جو اپنے
اساتذہ کو متاثر کرنے میں ناکام رہااور
کسی معتبر تعلیمی ادارے
میں کوئی ملازمت نہ حاصل کر سکا
دنیائے سائنس میں نئے اوراچھوتے نظریات
سے ہلچل مچا دے گا۔ کسی تعلیمی ادارے
میں شمولیت نہ ملنے پرمجبوراً آئن سٹائن
کو ایک سوئس پیٹنٹ ہاؤس میں تیسرے درجے
کے کلرک کی نوکری کرنا پڑھی۔
لیکن
شاید اسی نوکری کا نتیجہ تھا کہ آئن سٹائن
نے اپنا ذیادہ تر فارغ وقت تحقیقی کام
میں صرف کیااور اپنے چند قریبی دوستوں
کے ساتھ وہ مسلسل نئے نظریات پر تبادلہ
خیال کرتا رہا۔اسی دوران آئن سٹائن نے
کچھ معمولی اہمیت کے تحقیقی مقالات
بھی شائع کیے۔
لیکن یہ 1905
کا
سال تھا جب ایک غیر معروف کلرک نے ایک دو
نہیں بلکہ چار مختلف مضوعات پر انتہائی
غیر معمولی اور انتہائی بنیادی اہمیت کے
ریسرچ پیپر شائع کیے ، جنھوں نے مروجہ
نظریات کی بنیادی ہلا دیں اورتحقیق
کیلئے نئی راہیں متعین کیں۔ ان مقالات نے
زماں و مکاں، توانائی و کمیت ،روشنی کی
ماہیت اور ایٹموں کی موجودگی کے بارے میں
ہمارے نظریات کو یکسر تبدیل کر دیا۔
آئیے
ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے کس ترتیب
سے اپنے تحقیقاتی کام کو شائع کیا جس کی
وجہ سے 1905
نے
ایک گمنام کلرک کو ہمارا اور آپ کا
جانا پہچانا "آئن
سٹائن "بنایا۔
1۔روشنی کا زراتی نظریہ اور فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ:
مارچ
1905
میں
آئن سٹائن کے اپناپہلا کرشماتی مقالہ
شائع کیا جس میں اس نے ضیاء برقی اثر(Photo
Electric Effect) کی
وضاحت کی۔فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ اس وقت تک
طبعیات دانوں کیلئے ایک معمہ تھا۔کیونکہ
اسوقت کے مروجہ نظریات کی بنیاد پر اس کی
وضاحت ممکن نہیں تھی۔
اس
معئمےکو حل کرنے کیلئے آئن سٹائن نے
کہا کہ روشنی زراتی نوعیت رکھتی
ہےاور یہ توانائی کے پیکٹوں پر مشتمل ہوتی
ہے جن کو "کوانٹا"
کا
نام دیا، اسی بنیاد پر پھر انھوں نے فوٹو
الیکٹرک ایفیکٹ کی انتہائی درست وضاحت
کی۔
ضیاء برقی اثر |
یہ
جاننے کیلئے کہ روشنی کی ماہیت کا زراتی
نظریہ کس قدر جرات مندانہ اور راویت سے
ہٹ کر تھا ؛ ہمیں روشنی کے بارےمیں اس
وقت کے مروجہ نظرئیے کو جاننا ہوگا۔ اگرچہ
روشنی کی ماہیت کے بارے میں دو متضاد
نظریات کئی صدیوں سے موجود تھے ۔ ایک نقطہ
نظر کے ماننے والوں جن میں آئزک نیوٹن بھی
شامل ہیں، کے مطابق روشنی انتہائی چھوٹے
چھوٹے کیپسول نما پیکٹوں پر مشتمل ہے۔جبکہ
مخالفین کے مطابق روشن بنیادی طور پر ایک
موج ہے اور اس کی خصوصیات دوسری موجوں
مثلاً آواز اور پانی پر بننے والی لہروں
کی طرح ہیں۔حتی ٰ کہ اٹھارویں صدی میں ینگ
نے مشہور دو شگافی تجربے سے یہ ثابت کیا
کہ روشنی واقعی موجی خصوصیات رکھتی ہیں
۔ اس کے بعد طبعیات داں طبقہ میں یہی نظریہ
مقبول رہا کہ روشنی ایک موج ہے ۔یہاں تک
کہ آئن سٹائن نے اپنے مقالے میں روشنی کے
زراتی ہیئت کو استعمال کرنے ہوئے فوٹو
الیکٹرک ایفیکٹ کی وضاحت کی۔(کوانٹم
فزکس کی بدولت اب ہم جانتے ہیں کہ روشنی
اور دوسرے بنیادی ذرات بیک وقت ذاتی اور
موجی خصوصیات رکھتے ہیں۔)
اگرچہ
یہ آئن سٹائن کا سب سے بہترین تحقیقی کام
نہیں تھا مگر اسی کے بدولت 1921
میں
آئن سٹائن کو طبیعات کا نوبل انعام ملا۔اسی
پیپر نے کوانٹم فزکس کی بنیاد میں مرکزی
کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں: سال 2015کے بہترین سمارٹ فون
2۔براؤنی حرکت کی وضاحت :
دو
ماہ بعد آئن سٹائن نے ایک مختلف مگر بنیادی
سوال کا جواب دیا۔مئی 1905
میں
شائع پیپر میں آئن سٹائن نے براؤنی حرکت
کی وضاحت کی۔ تقریباً 1827
میں
رابرٹ براؤن نے خوردبین کی مدد سے پانی
میں موجود انتہائی باریک پولن ذرات
کا جائزہ لیا تو اس نے دیکھا کہ تمام ذرے
انتہائی مسلسل مگر انتہائی بے ہنگم حرکت
میں تھے، جس کی اس کے پاس کوئی وضاحت ممکن
نہ تھی۔اس حرکت کو براؤنی حرکت کا نام دیا
گیا اور تقریباً اگلے 80
برس
اس حرکت کی وجہ ایک راز ہی رہی ۔(جیسا کہ آپ اس تصویر میں ملاحضہ کر سکتے ہیں۔)
دو جہتوں میں براؤنی حرکت |
آئن
سٹائن کے براؤنی حرکت کی وضاحت اٹامک
/مالیکیولر
نظرئیے کی بنیاد پر دی اور انتہائی
خوبی سے شماریاتی ریاضی کو استمال کرتے
ہوئے ثابت کیا کہ پانی میں ذرات کی بے ہنگم
حرکت نظر نہ سکنے والے انتہائی چھوٹے اور
مسلسل متحرک ذروں یعنی ایٹموں کے ساتھ
مسلسل ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔اس پہلے اگرچہ
ایٹم کا نظریہ موجود تھا مگرایٹموں کی
موجودگی کے حوالے سے مظبوط دلائل نہ ہونے
کی وجہ سے بہت سے اہم سائنسداں ایٹموں کو
ایک مفروضے سے ذیادہ اہمیت نہیں دیتے
تھے۔یہ پیپر ایٹمی نظرئیے کے حق میں
انتہائی مظبوط دلیل ثابت ہوا۔
اس
کے بعد مئی اورستمبر میں شائع مقالات نے
تقریباً دو صدیوں سے رائج نیوٹونی
حرکیات(Newtonian
Mechanics ) کی
جڑھیں ہلا دیں، اور زماں و مکاں کے بارے
میں ہمارے نظریات کو یکسر بدل دیا۔آپ جان
چکیں ہو نگے کہ ہم نظریہ اضافیت کی بات کر
رہے ہیں،جس کے بارے میں تفصیل آپ آئندہ
تحریر میں ملاحضہ کر سکیں گے۔
No comments:
Post a Comment