قدیم اہل یونان کا نظریہ حرکت

اہل یونان نے سب سے پہلےجس مظہر فطرت پر غور کیا ،وہ حرکت تھا۔حرکت سے ہمارے ذہن میں فوراًیہ خیال پیدا ہوتا سے کہ یہ زندہ اجسام کی صفت و خصوصیت (Attributes)ہے،جیسا کہ انسان اور جانور آزادانہ حرکت کر سکتے ہیں جبکہ پتھر اور کتابیں نہیں۔یقینا ً ایک زندہ جسم کی بیرونی قوت کے زیرِاثر ہم بے جان اشیاء مثلاً پتھروں کی حرکت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
تاہم یہ نقطہ نظر بہت مواقع پر پورا نہیں اترتا،کیونکہ حرکت کی بہت سی اقسام میں کسی جاندار کی عمل پزیری ممکن نہیں: مثلاً اجسامِ فلکی آسمان پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے نظر آتے ہیں یا  ہوا پنی مرضی سے چلتی ہے۔ممکن ہے تب لوگ فلکی اجسام کی حرکت کی یہ متبادل وضاحت کرتے ہوں کہ فلکی اجسام کو فرشتے حرکت دیتے ہیں، ہوا کسی دیوی ،دیوتاکے سانس لینے سے چلتی ہے۔اور واقعتاً ایسی وضاحتیں صدیوں تک مختلف معاشروں میں رائج رہیں۔تاہم یونانی فلاسفر مختلف مظاہرِ فطرت کی ایسی وضاحت کیلئے کوشاں رہےجو کہ خالصتاً عقلی بنیادوں پر استوار ہوں اور ان مظاہر فطرت کو بھی بیان کرسکیں۔سو دیوتا ،جنات اور شیطان اس بحث سے خارج ہو گئے۔
اسکے علاوہ بھی حرکت کی کچھ مزید مثالیں بھی ماحول میں موجود ہیں: آگ سے نکلتا دھواں بے ترتیبی سے اوپر کی طرف اٹھتا ہے،اگر پتھر کو بغیر سہارے کی ہوا میں معلق کیا جائے تو وہ فوراً زمین کیطرف گرتا ہے۔حالانکہ اس پر ظاہری طور پر کوئی قوت عمل نہیں کرتی۔یقیناً کسی آسیب سے مرعوب دماغ میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دھویں کے ہر زرے میں کوئی چھوٹا سا جن بیٹھ کر اسے اوپر حرکت دے رہا ہو۔یا پھر کوئی دیوتا آسمانی اجسام کی حرکت کو کنڑول کررہا ہو۔
ان داستانوں سے قطعِ نظر حرکت کے متعلق اہلِ یونان کے فلاسفر کے نظریات کو ارسطو نے منظم کیا۔ارسطو کے مطابق کائنات میں ہر عنصر(اس وقت اہل یونان کے مطابق چار بنیادی عناصر تھے:ہوا،پانی،مٹی اور آگ) کی ایک مخصوص "بنیادی جگہ" ہے۔عنصر "مٹی"(جس میں زمیں اور تمام مادی اشیاء شامل ہیں) کی بنیادی جگہ کائنات کے مرکز میں ہے۔تمام مٹی اور ٹھوس مادہ کائنات کے مرکز میں جمع ہوکر زمیں بنائی ،جس پر ہم موجود ہیں۔عنصر مٹی کا ہر زرہ ممکنہ حد تک زمین کے مرکز کے گرد جمع ہوتا گیا جس سے زمیں کی شکل کسی فٹبال کی طرح کروی ہو گئی۔یہ دلیل ان چند دلائل میں سے ایک ہے جس سے ارسطو نے ثابت کیا کہ زمین کی شکل کروی ہے نہ کہ گول ڈسک کی طرح چپٹی۔
اسی طرح عنصر "پانی" کی بنیادی جگہ عنصر زمین کےکرے کی سطح سے باہر ہے،عنصر "ہوا" کی بنیادی جگہ پانی کے کرے سے باہر اور عنصر "آگ " کی بنیادی جگہ ہوا کے کرے کی سطح سے باہر ہے۔
اب چونکہ کوئی بھی شخص نظامِ کائنات کی وضاحت کسی بھی طریقے سے کر سکتا ہے مگر ہمارے لئے وہ وضاحت بےکار اور وقت کا ضیاع ہو گی جو کے ان ٹھوس "حقائق" کے برعکس ہو جن کا مشاہدہ ہم اپنی حساسیات کے تحت کرتے ہیں۔مگر مندرجہ بالا یونانی نظریہ حرکت میں ہمارے مشاہدات ارسطو کے نظریے کی تصدیق و توثیق کرتے ہیں۔جیسا کہ ہماری حساسیات ہمیں بتاتی ہیں کہ زمین کائنات کے مرکز میں ہے؛سمندر کی تہہ نے سطح زمین کے بہت بڑے حصے کو ڈھانپ رکھا ہے؛اور پانی کی اس سطح کے اوپر ہوا کی دبیز تہہ ہے،جسکا مشاہدہ آندھی و طوفان میں بادلوں کے گرج سے ہوتا ہے۔
مفروضہ: یہ نظریہ کہ ہر عنصر کی ایک بنیادی جگہ ہے،ایک مفروضہ کی مثال ہے۔سائنسی طریقہ کار میں مفروضہ کو بغیر ثبوت کے درست تسلیم کیا جاتا ہےاور محض مفروضے کو غلط یا صحیح نہیں کہا جاسکتا:کیونکہ اسے نہ تو ہم درست ثابت کر سکتے ہیں نہ غلط(اگر ایسا ہو جائے تو وہ پھر مفروضہ نہیں رہتا)۔لیکن کسی مفروضے سے اخذ کیے گے نتائج کا حقیقی نتائج کے عین مطابق یا برعکس ہونے پر اسے ہم کارآمدیا بےکارقرار دے سکتے ہیں۔
اب اگر دو مختلف طرح کے مفروضے حقیقی مشاہدات کو یکساں طور پر بیان کریں تو اس صورت میں ہم کس مفروضے کو برتر کہیں گے؟یقینی طور پر وہ مفروضہ جو سادہ اور حقائق کی زیادہ گہرائی سے وضاحت کر رہا ہو۔
دوسرے لحاظ سے ایک مفروضہ کسی بھی دلیل کا کمزور پہلو ہوتا ہے: کیونکہ طبعی سائنس میں اسے بنیادی طور پر درست ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔جبکہ طبعی سائنس کی اپنی بنیادیں انسانی عقل پر استوار ہیں۔لیکن چونکہ ہمیں کہیں نہ کہیں سے ابتداء تو کرنی ہے، اس لیے مفروضات ناگزیر ہیں اور ان سے ہم دامن نہیں بچا سکتے۔مگر ہم یہ کر سکتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو سکے،اتنا ہی مفروضات کی تعداد کم سے کم رکھی جائے۔یوں اگر کائنات کے کسی پہلو کو دو نظریات یکساں طور پر بیان کریں تو وہ نظریہ زیادہ قابل ِقبول ہو گا جس میں مفروضات کی تعداد کم از کم ہو۔(یہ نقطہ نظر قرونِ وسطا کے انگریز فلسفی ولیم اوکمWillam Occam))نے پیش کیا تا کہ غیر ضروری مفروضات سے ہر ممکن حد تک اجتناب کیا جا سکے،یوں ہم غیر ضروری مفروضات کو اوکم ریزر(Occam Razer)کے زریعے رد کر دیتے ہیں۔

1 comment:

  1. جناب اس پوسٹ کے بعد آپ نے چند مزید تحریریں شائع کی ہیں جن میں اس پوسٹ کا تذکرہ ہے۔ گذارش ہے کہ جہاں جہاں آپ اس پوسٹ کا تذکرہ کر رہے ہیں وہاں الفاظ کو لنک بنا دیں۔ مثال کے طور پر پچھلے حصے پر لنک لگا دیں تو اس پوسٹ کو ڈھونڈنا آسان ہو جائیگا۔

    ReplyDelete