آگ لگنے اور پھٹنے سےمحفوظ نئی سالڈا سٹیٹ بیٹری

امریکی ٹیکساس یونیورسٹی کی انجنیئرنگ ٹیم نے ایک نئے بیٹری  سیل کا  ابتدائی نمونا( پروٹوٹائپ  )تیار کیا ہےجو کہ نہ صرف پھٹنے اورآگ پکڑنے سے محفوظ ہے بلکہ یہ آج کی مروجہ لیتھیم آئن بیٹریوں کی نسبت سستی اور دیر پا بھی ہو گی۔خاص بات یہ ہے کہ یہ نئی بیٹری سالڈ سٹیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔جبکہ لیتھیم آئن بیڑیاں مائع الیکٹرو لائیٹ سے تیار کی جاتی  ہیں۔
94 سالہ پروفیسر جون گاڈون

مذکورہ بیٹری ٹیکساس یونیورسٹی کے 94 سال  پروفیسر جوہن گاڈوِن کی زیر نگرانی تیار کی گئی ہے۔بتاتے چلیں کہ یہی صاحب  مقبول ترین لیتھیم آئن بیٹری کے شریک موجد بھی ہیں۔جو کہ  آج کل نہ صرف  موبائل ولیپ ٹاپ بلکہ  برقی گاڑیوں  تک میں استعمال ہو رہی ہیں ۔مگرکثرت استعمال کے باوجود انکی  ایک بڑی خامی یہ ہے کہ کچھ خاص حالا ت میں یہ آگ پکڑ سکتی ہیں۔جو کہ کسی  حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
سیمسنگ نوٹ 7 بیٹری پھٹنے کے بعد

لیتھیم بیٹری کی اسی خامی کی وجہ سے سیمسنگ نوٹ 7 کی بیٹریاں پھٹنے اور آگ پکڑے کے کئی  واقعات رونما ہوچکے ہیں،جس وجہ سے سیمسنگ کو کروڑوں ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑھا تھا ۔بات سیمسنگ نوٹ 7 تک محدود  نہیں بلکہ  پچھلے دنوں ایپل کے مہنگے ترین آئی فون 7 پلس کے پھٹنے کی وڈیو بھی سامنے آ چکی ہے۔اگرچہ دورانِ تیاری  ان موبائلز میں بیٹری کو محفوظ رکھنے کیلئے بہت سی حفاظتی تدابیر اختیار کی جاتیں ہیں لیکن ماہرین کے مطابق ان تمام تر حفاظتی  اقدامات کے باوجود بھی لیتھیم آئن بیٹری میں  آگ پکڑےیا پھٹنے کی کچھ نہ کچھ امکان ضرور موجود رہتا ہے۔


لیٹھیم بیٹریوں میں مسلسل چارج ذخیرہ (Charging)اور استعمال ہونے (Discharging) کے دوران لیتھیم آئن پر ایک خاص تہہ بنتی رہتی ہےجو بیٹری کی عاجز(Insulating layer) کو نقصان پہچاتی ہے جس وجہ سے شارٹ سرکٹ اور بیٹری  میں آگ لگنے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔

اسکے علاوہ لیتھیم ان  عناصر میں شامل ہے جن کی دستیابی اگلے 100 سال بعد زمین پر انتہائی ناپید ہو چکی ہوو گی۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے ادارے  مروجہ لیتھیم آئن  بیٹری ٹیکنالوجی کو پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ متبادل ٹیکنالوجی پر بھی کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: منٹوں میں چارچ ہونے والی موبائل بیٹر


اسی تناظر میں ماہرین اس نئی سالڈ اسٹیٹ بیٹری  کو ایک اہم پیش رفت قراردے رہے ہیں۔بیٹری کی موجد انجنئیرنگ ٹیم کے مطابق سالڈ اسٹیٹ  بیٹری  میں  چارج ذخیرہ کرنے کی صلاحیت لیتھیم آئن بیڑی سے تین گناہ ذیادہ ہو گی۔جس وجہ سے مستقبل میں مزید پتلےاور ذیادہ دیرپا بیٹری لائف والے موبائل تیار کیے جائیں سکیں گے۔اس کے علاوہ  الیکٹرک گاڑیاں  بھی انکی  بدولت  ایک مکمل چارجنگ کے بعد ذیادہ فاصلہ طے کر سکیں گی۔

عام استعمال بیٹریوں میں مائع لیتھیم آئن استعمال کیا جاتا ہے جو کہ مثبت اور منفی بروقیروں کے درمیان برقی آئن کی ترسیل کرتا ہے۔اس کے برعکس سالڈ اسٹیٹ  بیٹری میں  گلاس الکٹرو لائٹ استعمال کیے  گئے ہیں جس وجہ  سے ان میں لیتھیم کے علاوہ کسی  بھی الکی دھات (پوٹاشیم،کیلشیم وغیرہ)  کو مثبت برقیرے کے طور پر استعمال کی جا سکے گی ۔کیونکہ باقی الکی گروپ کی دھاتیں لیتھیم کی نسبت سستی ہیں اس لئے یہ بیٹریاں کم قیمت بھی ہو ں گی۔

آج موبائل ، لیپ ٹاپ اور الیکٹرک کاروں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے بیٹریوں کی مانگ بھی اپنے عروج پر ہے۔اس لئے بہت سے ادارے نئی  پیشرفت کے دعوے ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں مگر دعوں کے برعکس کوئی متبادل  پروڈکت متعارف نہیں کرا سکے۔اس لئے دیکھنا یہ ہےکہ سالڈ اسٹیٹ بیڑی لیتھیم آئن کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکے گی یہ پھر ایک دعویٰ تک ہی رہے گی۔

اسپیس ایکس کرائے گی چاند کا سیاحتی دورہ

ہائی سکول کی درسی کتاب میں ابن انشاء کے سفر نامے 'چلتے ہو تو چین کو چلیے ' میں سے ایک اقتباس پڑھا تو  دل میں  چین کی سیاحت کی خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن اب نیا دور ہے اور اس کے تقاضے بھی نئے ہیں۔  یہ چین سے بھی  آگے جانے کا زمانہ ہے بلکہ  اب انسان دوبارہ چاند پر کمند ڈالنے کا سوچ رہا ہے۔

اس تمہید کی وجہ امریکی کمپنی اسپیس ایکس کا  اعلان  ہے کہ وہ دو 'عام شہریوں' کو اگلے سال چاند کی سیاحت کے لئے لے کر جائے گی۔ یعنی اب آپ نے کسی نئی جگہ جانا ہی ہے تو چاند کی سیاحت کیلئے جانے کا سوچیں۔
اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک
 
خاص بات یہ ہے کہ اس مشن میں دو مسافر جن کا ابھی تک نام ظاہر نہیں کیا گیا، کسی بھی طرح کے خلا باز یا سائنسدان  نہیں ہیں۔یہ  ایک نجی سیاحتی سفر میں چاند کے گرد چکر پورا کریں گے۔ اس سفر  کا پہلا حصہ زمین سےخلاء اور پھر وہاں سے اصل ایڈونچر ایک خاص سواری بردارڈریگن کیپسول کے ذریعے چاند کی گرد چکرکی صورت میں مکمل ہو گا۔دوران سفر یہ سیاح چاند پر اتریں گے نہیں، بلکہ اس کے ثقلی میدان میں گردش کے دوران  چاند کو قریب سے دیکھنے کا لطف حاصل کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:مریخ پر اکیلے بے یارو مدد گار خلا نورد کی داستان


اگر سب کچھ توقعات کے مطابق رہا تو اگلے سال کے آخری دنوں میں یہ خلائی سیاح کینیڈی خلائی سٹیشن سے اپنے سفر پر روانہ ہونگے۔یہ وہی تاریخی سٹیشن ہے جہاں سے اپالو مشن کے زریعے ناسا نے چاند کو تسخیر کیا تھا۔اس مشن کے لانچ کیلئے فالکن راکٹ استعال کیا جائے گا جو کہ اسپیس ایکس کا اپنا تیار کردہ ہے۔ چاند تک چلنے کا یہ سفر ایک ہفتے پر محیط ہو گا اور اس دوران خلائی جہاز تین سے چار لاکھ میل کا فاصلہ طے کرے گا۔

اس سفر کے درست اخراجات ابھی ظاہر نہیں کیے گئے مگر اندازہ ہے کہ اس سفر کیلئے ایک انسانی بردار خلائی مشن جتنا خرچ آئے گا۔موازنے کیلئے بتاتے چلیں کہ روسی سویز کیپسول کے ذریعے ایک خلاء باز کو خلا میں لے جانے کیلئے ناسا کو 8 کروڑ ڈالر خرچ کرنے پڑھتے ہیں۔

اس مشن کے متعلق کمپنی کے مالک ایلون مسک بہت پرجوش ہیں ۔ایلون نے خلائی سفرمیں حکومتی اجارہ داری کوختم کرنے اور خلائی تسخیر  عام انسانوں کی دسترس میں لانے کیلئے ہی اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔
اس موقع پر ایلون کا کہنا تھا کہ 'ہمارے یہ کلائنٹ اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں کہ چاند تک کا خلائی سفر خطروں سے بھرپور ہو گا۔مگر ہماری پوری کوشش اس بات پر مرکوز رہے گی کہ اتنے بڑھے خلائی سفر کیلئے ممکنہ خطراک کو کم سے کم کیا جائے۔

ان کے مطابق اور بھی بہت سے افراد نے خلائی سفرمیں دلچسبی کا اظہار کیا ہے۔اس مشن کی کامیابی کی صورت میں اسے کو وسعت دے جائے گی،جس سے نہ صرف کمپنی کو مالی فائدہ حاصل ہو گا ، بلکہ انسان کی خلائی دسترس کا ایک نیا باب بھی شروع ہو گا۔