فیس بک "لائیک بٹن" بالآخر اپگریڈ ہونےکے قریب

فیس بک کی سہہ ماہی میٹنگ کے اختتام پر  کمپنی کے بانی مارک زکربرگ  نے اعلان کیا ہے کہ کسی بھی فیس بک پوسٹ پر  مناسب ردعمل کے اظہار کے لئے فیس بک لائیک بٹن کے علاوہ نئے 6 ایموجی متعارف کرانے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکی ہے اور جلد ہے تمام پلیٹ فارم کیلئے لائیک بٹن کو اپڈیٹ کر دیا جائے گا۔

دیکھا جائے تو ایک  عرصے سے فیس بک ڈسلائیک بٹن کےحوالےسے مختلف افوائیں گردش میں تھیں،پھر یہ خبر چلی کی فیس بک میں ڈسلائیک کی بجائے اظہار ہمدردی کیلئے بٹن متعارف کرایا جائے گا ۔لیکن اب کمپنی انتظامیہ نے اپنے یوزرز کیلئے ایک سے ذیادہ آپشن مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔



فیس بک صارفین کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کسی پوسٹ پر ردعمل کے اظہار کیلئے لائیک بٹن کے علاوہ دوسرے بھی آپشن موجود ہونے چاہیں تا کہ کوئی بھی پوسٹ کی نوعیت کے لحاظ سے اپنا مناسب ردعمل ظاہر کر سکے۔اگر آپ فیس بک کے صارف ہیں تو  یقیناً بعض اوقات آپ خود بھی مختلف پوسٹوں پر ردعمل کے اظہار میں مشکل کا شکار ہوئے ہونگے۔اکثر کسی  بے فائدہ، اکتا دینے والی یا  بے تکی  پوسٹ کو "ڈسلائیک " کرنے کو دل کرتا ہے،مگر ناپسندیدگی کے اظہار کی کوئی صورت نہ ہونی کی وجہ سے کچھ کیا نہیں جا سکتا۔یا پھر کسی افسردہ اور غمگین پوسٹ کو "لائیک" کرنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔اسی لئے آپکے جذبات کے اظہار میں  حائل "لائیک بٹن" میں اضافہ کرتے ہوئے پانچ اضافی بٹن متعارف کرائے گی تا کہ پوسٹ کی مناسبت سے آپ اپنے ردعمل کو درست طریقے سے بیان کر سکیں۔

ردعمل کے لئے اضافی بٹن:

اب کسی بھی پوسٹ پر آپ ردعمل  میں ناراضگی کا اظہار کرنا چاہیں(Angry)،کوئی پوسٹ دل میں اتر جائے(Love)، کوئی قہقہ لگانے پہ مجبورکردے(Haha)، آپ کو حیرت میں گم کر دے(Wow) یا کوئی پوسٹ آپ کو افسردہ کر دے(Sad)آپ ان تمام جذبات کا اظہار مناسب ایموجی کے ذریعے دے سکتے ہیں۔

فیس بک کے نئے ایموجی بٹن

فیس بک کی دوسری میجسنگ سروسز مثلاً میسنجراوروٹس ایپ پر پہلے سے جذبات کے اظہار کیلئے بیسیوں ایموجی موجود ہیں اور پیغامات کے تبادلے میں ان کا استعمال بھی انتہائی ذیادہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک انتظامیہ مکمل پر اعتماد ہے کہ ان بٹنوں کے اضافے سے فیس بک کے ڈیڑھ ارب صافین مقبول سوشل نیٹ ورک کو مزید  سہولت سے استعمال کر سکیں گے۔

مزید پڑھیے:مارک زکربرگ اس سال مصنوعی ذہانت کی تیاری میں منہمک

نئے کمپیوٹر پروسیسر صرف ونڈوز 10 کو سپورٹ کریں گے: مائیکروسافٹ

اگست 2015 میں ونڈوز 10 کی رونمائی کی بعد مائیکروسافٹ کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے ذیادہ سے ذیادہ صارفین کو ونڈوز 10 کے پلیٹ فارم تک لایا جائے۔خبر یہ ہے کہ ا س مہم  میں مائیکروسافٹ  نے اب اپنےساتھ سی پی یو مینوفیکچررز کو بھی شامل کر لیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ انٹل ،اے ایم ڈی اور کوالقام جیسے اداروں کے تیار کردہ نئے سی پی یو صرف اور صرف ونڈوز 10 کے ساتھ ہی مکمل مطابقت رکھیں گے۔اس وجہ سے  نئے کمپیوٹرز پر ونڈوز10 ذیادہ بہتر اندازاور برق رفتاری سے کام کر سکے گی مگرونڈوز  کے پرانے ورژن  مثلاً ونڈوز7 اور ونڈوز 8سہولت سے نہیں چل سکیں گے۔
 
ونڈوز10 کا سکرین شاٹ
مائیکروسافٹ کی نڈوز 10 کی ریلیز سے ہی  کوشش تھی کہ جلد از جلد ذیادہ سے ذیادہ کمپیوٹرصارفین ونڈوز 10 پر منتقل ہو جائیں۔ اسی لئے مائیکروسافٹ نے تاریخ میں پہلی دفعہ صارفین کو آفر دی کہ وہ مفت اور بلا معاوضہ  اپنے  کمپیو ٹر کو  ونڈوز 10 پراپگریڈ کر سکتے ہیں۔یوں بہت سے صارفین نے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے آپریٹنگ سسٹم پر منتقل بھی ہوئے لیکن شاید  مائیکروسافٹ ابھی بھی ونڈوز 10 کے صارفین کی تعداد سے مطمئن نہیں ہے۔اس لئے ساتھ کچھ ماہ پہلے مائیکروسافٹ  نےتاحال  ونڈوز 8 اور 7 استعمال  کرنے والے صارفین کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے خبردار کیا کہ وہ جلد از جلد  ونڈوز 10 پر منقتل ہو جائیں یا پھر  تاخیر کی صورت میں وہ کبھی نئے آپریٹنگ سسٹم پر منتقل نہیں ہو سکیں گے۔

مزید پڑھیے:پہلا مائیکروسافٹ فون

 اب  مائیکروسافٹ کے اس اعلان کے بعد وہ  پرسنل کمیپوٹرز  جن پر ونڈوز 8 یا 7 نصب ہو گی ان کو 2017 میں یہ پیغام بھیجا جائے گا کہ "آپ کا کمپیوٹر صرف انتہائی سنگین سیکورٹی خدشات  سے روک تھام کیلئے اپڈیٹ حاصل کر ے گا۔" مگریہ نئی حکمت علمی مائیکروسافٹ کی پالیسی کےخلاف ہے جس میں کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ونڈوز 7 کی سپورٹ 2020 جبکہ ونڈوز 8 کی سپورٹ 2020 تک جاری رکھی گی۔یہ تمام  پیش رفت اس بات   کا ثبوت ہے کہ کمپنی اپنے پرانے آپریٹنگ سسٹم کو نظرانداز کر کے اپنی توجہ صرف ونڈوز 10 پرمرکوز کرنا چاہتی ہے۔ 

تنقید:

مائیکروسافٹ جس طرح سے جارحانہ پایسی کے زریعے اپنے صارفین کو ونڈوز 10 پر منقتل کرنا چاہ رہی ہے اس سے وہ مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے صارفین کی ایک بڑی تعداد ونڈوز کےمتبادل سسٹمز لینکس اور ایپل میک پر منقتل ہو جائے گی جو کہ کمپنی کیلئے سود مند نہیں کیونکہ پہلے ہی اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے پرسنل کمپیوٹرز کی فروخت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے  ۔کم کمپیوٹرفروخت ہونے کی وجہ  سے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے صارفین بھی کم ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیے:ونڈوز 10کی تنصیب اور پہلا تاثر 

 


آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت

جون 1905 میں آئن سٹائن  نے  اپنے سب سے انقلابی، اثر انگیز اوربہترین نظرئیے کو ایک مقالے میں پیش کیا۔بالکل،آپ ٹھیک سمجھے ہم نظریہ اضافیت کی بات کر رہے ہیں۔مگر جیسا کہ عام خیال ہے اضافیت بذات خود ایک نیا نظریہ نہیں تھا بلکہ اضافیت کا تصور گلیلیو اور نیوٹن کے دور سے موجود تھا۔لیکن آئن سٹائن نے اضافیت کو ازسر نو ایک نہیں بلکہ دو مختلف شکلوں میں بیان کیا۔جون 1905 میں شائع مقالے میں آئن سٹائن نے پہلے خاص نظریہ اضافیت(Special Theory of Relativity ) کو پیش کیا،جس نے دو سو سالوں سے رائج نیوٹونی حرکیات کی بنیادیں الٹ دیں اور زمان ومکاں کے حوالے سے رائج ہمارے ادراک و نظرئیے کو نئے سرے سے استوار کیا۔لیکن خاص نظریہ اضافیت کو سمجھے کیلئے ہمیں حرکت اور سکون کے بارے میں مزید جاننا ہو گا اس لئے کچھ دیر 1905 سے ماضی میں چلتے ہیں۔
طبیعات کی سب سے مشہور مساوات

(یہ مضمون  کے اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے جس کو آپ یہاں ملاحضہ کر سکتے ہیں۔)

 

ارسطو،گلیلیو ،نیوٹن اور اضافیت:

اضافیت کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے حرکت کے تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔بینادی طور پر تمام جاندار حرکت کا ادراک رکھتے ہیں لیکن  حرکت بذات خود کیا چیز ہے ؟اس کا جواب سب سے پہلے اسطور نے دینے کی کوشش کی۔یونانی فلسفی ارسطو کے مطابق تمام اشیاء ترجیحی طور پر حالت سکون میں موجود ہوتی ہے۔ یعنی جب آپ کسی چیز کو حرکت دیں تو وہ جلد از جلد حالت سکون میں آنے کی کوشش کرتی ہے اور کچھ وقت کے بعد دوبارہ ساکن ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پر جب آپ کسی فٹبال کو ٹھوکر ماریں کو وہ کچھ دیر حرکت کرنے کے بعد واپس حالت سکون میں آ جائے گا۔ارسطو کایہ نظریہ صدیوں  تک رائج رہا ،یہاں تک کہ گلیلیو نے اپنی تجربات کی بدولت اس کو رد کیا۔(حرکت کے بارے میں قدیم نظریات کیلئے یہاں مزید پڑھیں۔)

گلیلیو نے  کشش ثقل کے زیر اثر آذادانہ گرتے اجسام کا مطالعہ کیا اور اپنے  عمیق مشاہدے کے باعث حرکت کے بارے میں جدیدتصورات کی بنیادرکھی۔اپنے تجربات کی بنیاد پر گلیلیو نے یہ نتیجہ نکالا کہ  کوئی بھی چیز ترجیحی طور پر حالت سکون یا حرکت میں نہیں ہو گی۔بلکہ حرکت اور سکوں ایک دوسرے کے لحاظ سے اضافی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔اس کو ہم مثال کے زریعے بہتر سمجھ سکتے ہیں :فرض کریں آپ ایک دوست کے ساتھ ریل میں سوار ہو کر  کسی دوسرے شہر جاتے ہیں، ساتھ والی سیٹ پر موجودآپکا دوست آپکے حوالے سے ساکن ہے،کیونکہ اسکے اور آپکے درمیان فاصلہ تبدیل نہیں ہو رہا۔ مگر سڑک پر موجود آپکے کے والدین کے حوالے سے آپ دونوں حرکت میں ہیں،کیونکہ آپ دونوں ہر لمحہ ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔امید ہے یہاں آپ سمجھ گئے ہونگے کہ حالت حرکت یا حالت سکون  حوالگی فریم (فریم آف ریفیرنس) کے   وجہ سے تبدیل ہو جاتےہیں۔



  اگر غور کیا جائے تو   آپ کسی بھی طریقے سے یکساں حرکت  یا حالت سکون میں فرق نہیں کر سکتے،اضافیت  میں یہ انتہائی  بنیادی نقطہ   ہے۔ جس کو سمجھنے کیلئے  ہم آپکو دوبارہ ایک ٹرین بلکہ  "آئیدیل ٹرین" کے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ آئیڈیل اس لئے کیونکہ ٹرین کا ہر ڈبہ ساؤنڈ پروف اور جمپ پروف ہے یعنی آپ آواز اور ڈبے کے ہلکوروں سے یہ نہیں جان سکتے کہ یہ ساکن ہے یا متحرک۔

فرض کریں آپ  اس ٹرین میں سوار ہوتے وقت انتہائی تھکاؤٹ کا شکار تھے،اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی آپکو اونگھ آ گئی۔اس ہلکی سے نیند کے دوران ٹرین آہستگی سے سٹارٹ ہوئی اور 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی انتہائی رفتار سے چلنے لگے۔(اتنی لمبی تمہید کے بعد) اب سوال یہ ہے کہ نیند سے جاگے کے بعد کیا آپ  بتا سکتے ہیں کہ ٹرین ساکن ہے یا متحرک؟  کیونکہ   روز مرہ تجربات میں ہم بہ آسانی حالت حرکت اور ساکن حالت میں فرق کر سکتے ہیں، اس لئے عقل سلیم کے مطابق کوئی ایساطریقہ ضرور ہو گا جس کو استعمال کرتے ہوئے  یہ بتانا جا سکے کہ  ٹرین حرکت میں ہے یا ساکن۔ لیکن حقیقت  اس کے بر عکس ہے،یعنی کسی بھی طبعی طریقے کو ااستعمال کرتے ہوئے  آپ کبھی یہ نہیں جان سکیں گے کہ "آیا ٹرین ساکن ہے یا متحرک؟"۔

اس ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ دو مختلف  جگہوں پر موجود مختلف شاہدین  کے لئے یکساں والاسٹی سے حرکت اور حالت سکون میں فرق کرنا ناممکن ہے۔ہم یہ فرق کیوں نہیں کر سکتے ؟ اسکا  جواب  مشہور طبعیات دان آئزک نیوٹن نے دیا  ہے۔نیوٹن نے اوپر موجود پوری "کہانی " کو ایک جملے میں بیان کیا کہ "یکساں ولاسٹی سے متحرک  یا ساکن حالت میں  موجود جسم پر کوئی قوت عمل نہیں کر رہی ہوتی اس لئے طبعی نقطہ نظر سے دونوں  میں فرق بھی ممکن نہیں۔" اس بیان کو نیوٹن کا پہلا قانون حرکت  کہا جاتا ہے۔

ریڈیائی لہریں اور روشنی کی رفتار:

واپس آئن سٹائن کی طرف جانے سے پہلے ہم ایک اور پیش رفت کی جانب چلتے ہیں۔ برطانوی طبعیات دان میکسویل نے   نہ صرف کائنات کے دو بنیادی قوتوں  یعنی برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو یکجا کیابلکہ اس کے ساتھ ہی تمام تر برقناطیسی  مظاہر کو بیان کرنے کے لئے چار مساواتوں کو بھی پیش کیا۔ یہ مساواتیں میکسویل مساواتیں کہلاتی ہے اور آج تک کامیابی سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ان مساواتوں کے بدولت میکسویل نے ثابت کیا کہ روشنی بھی ایک برقناطیسی موج ہے اور تمام برقناطیسی موجیں خلاء میں  ایک مستقل رفتار سے سفر کرتی ہیں۔کیونکہ ہر موج کی پیدا ہونے کیلئے ایک واسطے کی  ضرورت ہوتی ہے اس لئے فرض کیا کہ ایک انتہائی آئیڈیل خصوصیات  کا حامل واسطہ کائنات میں ہر سمت موجود ہے جس کو ایتھر کا نام دیا گیا۔
اس عرصہ میں دو امریکی سائنسدانوں مائیکلسن اور مورلے نے تجربہ وضع کیا جس سے  روشنی کی رفتار کا انتہائی درستگی کے ساتھ ناپی جا سکتی تھی۔ اسی تجربے کو انھوںنے ایتھر کا وجود  ثابت کرنے کیلئے استعمال کیا۔کیونکہ زمین سورج کے گرد مسلسل حرکت کر رہی ہےاور اس دوران وہ مسلسل ایتھر میں سے گزر رہی ہے، اس لئے سائنسدانوں کا اندا زہ تھا کہ  مختلف اطراف سے زمین پر پڑھنی والی روشنی کے رفتار مختلف ہو گی لیکن یہاں ایک حیرت انگیز نتیجہ حاصل ہوا۔مائیکلسن اور مورلے نے جس سمت سے بھی روشنی کی رفتار کی پیمایش کی ہر سمت سے ہمشہ یکساں نتیجہ حاصل ہوا۔یوں ایتھر کو ثابت کرنے کی بجائے اس تجربے نے ایتھر کے تصور کو ہی ختم کر دیا۔

آئن سٹائن اور اضافیت

یہاں سے اب ہم آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی طرف  آتے ہیں ۔آئن سٹائن نے ایک بہت جرات    مندانہ  مفروضہ پیش کیا ہے ہر مختلف حوالگی فریم میں موجود تمام  مشاہدین کیلئے"روشنی کی رفتار ہمیشہ مستقل ہو گی"۔ اس کی ایک دلیل ہم آئیڈیل ٹرین میں دیکھ سکتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ اسی ٹرین میں ہیں اور آپکے پاس روشنی کے پیمائش کا ایک  آلہ موجود ہے اور آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ ٹرین متحرک ہےیا ساکن؟اگر روشنی کی رفتار مستقل نہ ہو تو اس کا جواب دینےآپ نے صرف روشنی کی رفتار ناپ کردے سکتے ہیں کیونکہ چلتی ہوئی ٹرین میں روشنی کی رفتار ساکن حالت سے مختلف ہو گی۔لیکن آئن سٹائن کا اس بات پر پورا یقین تھا  کہ   قدرت میں ساکن اور یکساں رفتار سے متحرک جسم میں فرق کرنا ممکن نہیں اس لئے یہ تجربہ بھی آپ کو حرکت/سکون میں فرق نہیں بتا سکتا،اس لئے روشنی کی رفتار تمام جگہوں پر مستقل ہونی چاہیے۔
روشنی کی رفتار تمام شاہدین کیلئے مستقل  ہو تی ہے بظاہر بے ضرر مفروضہ لگتا ہے لیکن اس  کے بہت حیران کن اور عقل سلیم کے خلاف نتائج نکلتے ہیں۔

1۔ وقت کا آہستہ ہو جانا:

نیوٹن کے دور سے متفقہ خیال یہی تھا کہ وقت تمام شاہدین کیلئے ہمشہ یکساں رفتار سے گرزتا ہے۔لیکن خاص نظریہ اضافیت کے مطابق جب بھی کوئی جسم روشنی کی رفتار کے قابل موازنہ رفتار پر حرکت کرتا ہے تو اس جسم کیلئے وقت آہستگی سے گزرے گا۔لیکن قابل مشاہد ہ فرق کیلئے جسم کی رفتار روشنی کی رفتار کے قابل موازنہ ہونی چاہیے۔یو ں دو مختلف شاہدین کیلئے وقت کی رفتار بھی مختلف ہو سکتی ہے۔یہیں سے جوڑواں بھائیوں کے تناقضے  جنہم لیتا ہے۔فرض کریں آپکے محلے میں دو جوڑاواں بھائی موجود ہیں، ان میں سے ایک بھائی ایک راکٹ میں سوار ہو کے کائنات کی وسعتوں کی سیر کیلئے چلا جاتا ہے اور 5 سال بعد واپس زمین پر آ جاتا ہے۔لیکن اپنے جوڑویں بھائی سے ملکر حیران رہ جاتا ہے کیونکہ اسکا بھائی اب بوڑا ہو چکا ہوتا ہے۔

2۔ لمبائی کا سکڑنااور کمیت میں اضافہ:

انتہائی تیز رفتار حرکت صرف وقت پر اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ اس سے جسم کی لمبائی سکڑنے لگتی ہے اور کمیت بڑھنے لگتی ہے۔لمبائی  اورکمیت میں اس کمی بیشی کا مشاہدہ بھی روشنی سے قابل موازنہ رفتاروں پر کیا جا سکتا ہے۔

توانائی اور کمیت کا باہمی تعلق:

چونکہ ایک متحرک جسم کی کمیت ،رفتار کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے،جس کی وجہ سے جسم کی حرکی توانائی بھی اسی نسبت سے بڑھ جائے گی۔یوں آئن سٹائن ایک اور نتیجے پر پہنچا کہ توانائی اور کمیت بھی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس نظرئیے کو آئن سٹائن نے ستمبر 1905 میں ایک مزید پیپر شائع کیا جس میں اس نے ثابت کیا کہ کمیت اور توانائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بعد ازاں یہی نقطہ  ایٹمی بموں اور ایٹمی بجلی گھروں کی بنیادبنا۔


ایپل اسمارٹ واچ ،صارف کا پہلا انتحاب

ایپل نے 2007ء میں اسمارٹ فون کے میدان میں پہلی دفعہ قدم رکھا اور آتے ہی اس نے تمام صارفین کو اپنا گرویدہ کر لیا،آٹھ سا ل بعد آج  بھی ایپل آئی فون 6ایس سب سے ذیادہ فروخت ہونے والے  موبائل فونوں میں سے ایک  ہے۔بالکل یہی صورتحال اب ذہین گھڑیوں کی مارکیٹ کی بھی ہے، ایپل نے اپرئل 2015 میں  ایپل واچ فروخت کیلئے پیش کی ا ور یہ بھی توقعات کی عین مطابق سال میں سب سے ذیادہ فروخت ہونی والی اسمارٹ گھڑی بن گئی۔

ایک جاپانی تحقیقی ادارے کی مطابق 2015 میں فروخت ہونے والی اسمارٹ گھڑیوں میں ایپل واچ کا حصہ 52 فیصد تھا۔یعنی  سیمسنگ ، ایل جی ، مٹرولا اور ہواؤے جیسی باقی تمام  اداروں کی اسمارٹ گھڑیاں ملکر بھی ایپل واچ کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق  گذشتہ سال گوگل کے آپریٹنگ سسٹم اینڈرائد وئیر (Android Wear) پر مشتمل گھڑیوں کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا اور انکی مانگ میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی۔
ایپل واچ

نومبر 2015 میں سیمسنگ نے اپنے تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم ٹائزن (Tizen) سے لیس گھڑی گلیسی گئیر ایس 2 بھی پیش کی جو خاطر خواہ پزیرائی نہ حاصل کر سکی۔چونکہ یہ ادارے کوئی مظبوط حریف پروڈکٹ نہیں کر سکے اس لئے چھوٹی اور غیر معروف کمپنیوں کی سستی اسمارٹ گھٹریوں کی فروخت میں بھی قابل قدر اضافہ دیکھنے میں آتا۔یہ گھڑیاں کم قیمت ہونے کے باوجود ایک اسمارٹ واچ کے بنیادی فعل مثلاً نوٹیفیکیشن الرٹ اور فٹنس ٹریکنگ مہیا کرتی ہیں جب کہ بڑے ناموں کی مصنوعات  مہنگی بھی ہیں اور اپنی قیمت کے مطابق صارفین کیلئے پرکشش اضافی فیچر ز سے بھی محروم ہیں۔

مزید پڑھیے: ایپل بمقابلہ سیمسنگ اور نوکیا و مٹرولا کی فروخت


تجزیہ کاروں کےمطابق اگرچہ اسمارٹ واچ اور دوسے پہننے کے قابل آلات(وئیرایبل) فی الحال عالمی  مارکیٹ میں مستحکم جگہ نہیں بنا سکے اسی وجہ سے آئندہ برس میں بھی اسمارٹ گھڑیوں کی فروخت میں ڈرامائی اضافے کا امکان نہیں،کیونکہ ان مصنوعات کے تیار کنندگان کے پاس گھڑیوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کے علاوہ ان کی افادیت و صلاحیت(Functionality) میں نمایاں اضافے کا امکان نہیں ہے۔

اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ اپرئل 2016 میں پیش کیا جانے والا ایپل واچ کا اگلاورژن  کتنا بہتر ہو گا اور صارفین میں مقبولیت برقرار رکھ پائے گا کہ نہیں۔

مزید پڑھیے:  سمارٹ فون:ماضی ،حال اور مستقبل 


مارک زکربرگ اس سال مصنوعی ذہانت کی تیاری میں منہمک

فیس بک نے بانی مارک زکربرگ ہمیشہ خبروں میں رہنے کے فن سے آگاہ ہیں ۔ وہ ہر سال کے آغاز پرنئے سال کے لئے ایک نیا کام کرنے کا اعلان کرتے ہیں تا کہ وہ نئی نہ صرف نئی چیزیں سیکھ سکیں بلکہ ایک فرد کی حثیت سے اپنی شخصیت کی نشونما بھی جاری رکھ سکیں۔
 
آئرن مین کا جاروس
2016 کیلئے زکر برگ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں اعلان کیا ہے کہ اس سال وہ گھر اور دفترمیں اپنی مدد کیلئے ایک مصنوعی ذہانت سے لیس معاون تخلیق کرنا چاہتے ہیں ، جو کہ ٹونی سٹارک کے ہر فن مولا پرسنل اسسٹنٹ "جاروس" کے مشابہ ہو گیا۔
اگر آپ آئرن میں کہ فین ہیں تو پھر آپ جاروس سے بخوبی واقف ہونگے لیکن ایسا نہیں تو آپ کا جاروس سے تعارف کرائے دیتے ہیں۔جاروس ،مارول سٹوڈیوز کے کامک سپرہیروآئرن مین کے مصنوعی ذہانت لے لیس ذاتی معاون کا نام ہے۔اس کو ٹونی سٹارک(آئرن مین) نے اپنی مدد کیلئے تیار کیا ہے جو کہ آئرن میں کے فولادی سوٹ کے ساتھ لیبارٹری میں بھی ہمہ وقت خدمت کیلئے موجود ہوتا ہے۔ جاروس آئرن مین کے سوٹ میں اڑان بھرنے، اسلحہ، بیٹری کی معلومات کے ساتھ کسی بھی لمحے میں آئرن مین کے تحقیقی سوال کا جواب انٹرنیٹ پر موجود معمولات کو کھنگال کرسیکنڈوں میں لا دیتا ہے۔اگرچہ زکربرگ کا سافٹ وئیر جاروس جیسی ذہانت کا حامل تو نہیں تو گا مگر یہ ایک حقیقی ذہین معاون کی تیاری کیلئے ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے۔

فیس بک سے منسلک ہونے کے باعث زکر برگ مصنوعی ذہانت کے میدان میں موجود حالیہ ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ آپکی فیس بک وال پر موجود تمام پوسٹیں اور اشہارات مصنوعی ذہانت سے لیس سافٹ وئیر کی مدد سے ترتیب دی جاتیں ہیں۔اس لئے وہ انھیں دستیاب وسائل سے اپنے نئے منصوبے کو شروع کریں گے۔اس حوالے سے انکا کہنہ تھا کہ "اس معاون کا سافٹ وئیر لکھنا میرے لئے دلچسبی کے علاوہ ایک چیلنج بھی ہو گا۔"

پہلے مرحلے میں انکا معاون انتہائی سادہ کام کرنے کے قابل ہو گا۔جس میں وہ اسے اپنی آواز شناخت کرنے کے ساتھ گھر کے روزمرہ کام مثلاً برقی قمقموں،ہیٹر/ائیرکنڈشنر،ٹیلیوژن یا میوزک پلیئر کو کنٹرول کرنے کے قابل بنائیں گے۔جبکہ دوسرے مرحلے میں وہ اس پروگرام کو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے بصری شناخت سکھائیں گے تا کہ جب بھی ان عزیز و اقارب میں کوئی انکے گھر کی گھنٹی بجائے تو یہ پروگرام از خود انھیں شناخت کر کے دروازہ کھول سکے۔

گھر کے علاوہ یہ معاون ان کے دفتر میں بھی موجود ہو گا،جہاں وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے فیس بک، انسٹاگرام اور میسنجر جیسی سروسز کیلئے انتہائی وسیع ڈیٹا کو مجازی دنیا(Virtual Reality)میں دیکھ(Visualize) سکیں گے۔

بتاتے چلیں کہ گذشتہ برسوں میں بھی زکربرگ نئے سال کیلئے مختلف قراردادیں کر چکے ہیں جن میں سے ہر ماہ دو نئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ، ہر دن ایک نئے آدمی سے ملاقات کرنے کی شامل ہیں۔اس لئے اگر ہم ذاتی معاون تو تیار نہیں کر سکتے مگر نئی کتابیں پڑھنے یا نئے لوگوں سے ملنے جیسا کام تو ضرور کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  منٹوں میں چارچ ہونے والی موبائل بیٹری

1905 آئن سٹائن کا معجزاتی سال

آئن سٹائن کو بلاشبہ ہم جدید طبیعات کا بہترین دماغ گردانتے ہیں اور یقیناً سچ بھی یہی ہے۔ لیکن 1905 سے پہلے شاید ہی طبیعات داں طبقے میں کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ وہ  طالب علم جو اپنے اساتذہ کو متاثر کرنے میں ناکام رہااور کسی معتبر تعلیمی ادارے میں کوئی ملازمت  نہ  حاصل کر سکا دنیائے سائنس میں نئے اوراچھوتے نظریات سے ہلچل مچا دے گا۔  کسی تعلیمی ادارے میں شمولیت نہ ملنے پرمجبوراً آئن سٹائن کو ایک سوئس پیٹنٹ ہاؤس میں تیسرے درجے کے کلرک کی نوکری کرنا پڑھی۔


لیکن شاید اسی نوکری کا نتیجہ تھا کہ آئن سٹائن نے اپنا ذیادہ تر فارغ وقت  تحقیقی کام  میں صرف کیااور اپنے چند قریبی دوستوں کے ساتھ وہ مسلسل نئے نظریات پر تبادلہ خیال کرتا رہا۔اسی دوران آئن سٹائن نے کچھ معمولی اہمیت کے  تحقیقی  مقالات بھی شائع کیے۔

لیکن یہ 1905 کا سال تھا جب ایک غیر معروف کلرک نے ایک دو نہیں بلکہ  چار مختلف مضوعات پر انتہائی غیر معمولی اور انتہائی بنیادی اہمیت  کے ریسرچ پیپر شائع کیے ، جنھوں نے مروجہ  نظریات کی بنیادی ہلا دیں اورتحقیق کیلئے نئی راہیں متعین کیں۔ ان مقالات نے زماں و مکاں، توانائی و کمیت ،روشنی کی ماہیت اور ایٹموں کی موجودگی کے بارے میں ہمارے  نظریات کو یکسر تبدیل کر دیا۔

آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں  نے کس ترتیب سے اپنے تحقیقاتی کام کو شائع کیا جس کی وجہ سے 1905 نے ایک گمنام کلرک  کو ہمارا اور آپ کا جانا پہچانا "آئن سٹائن "بنایا۔ 


1۔روشنی کا زراتی نظریہ اور فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ:

مارچ 1905 میں آئن سٹائن کے اپناپہلا کرشماتی مقالہ شائع کیا جس میں اس نے ضیاء برقی اثر(Photo Electric Effect) کی وضاحت کی۔فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ اس وقت تک طبعیات دانوں کیلئے ایک معمہ تھا۔کیونکہ اسوقت کے مروجہ نظریات کی بنیاد پر اس کی وضاحت ممکن نہیں تھی۔
اس معئمےکو حل کرنے کیلئے  آئن سٹائن نے  کہا کہ  روشنی زراتی نوعیت رکھتی ہےاور یہ توانائی کے پیکٹوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کو "کوانٹا" کا نام دیا، اسی بنیاد پر پھر انھوں نے فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کی  انتہائی درست وضاحت کی۔
ضیاء برقی اثر
یہ جاننے کیلئے کہ روشنی کی ماہیت کا زراتی نظریہ کس قدر جرات مندانہ اور راویت سے ہٹ کر  تھا ؛ ہمیں روشنی کے بارےمیں اس وقت کے مروجہ نظرئیے کو جاننا ہوگا۔ اگرچہ روشنی کی ماہیت کے بارے میں دو متضاد نظریات کئی صدیوں سے موجود تھے ۔ ایک نقطہ نظر کے ماننے والوں جن میں آئزک نیوٹن بھی شامل ہیں، کے مطابق روشنی انتہائی چھوٹے چھوٹے کیپسول نما پیکٹوں پر مشتمل ہے۔جبکہ مخالفین کے مطابق روشن بنیادی طور پر ایک موج ہے اور اس کی خصوصیات دوسری موجوں مثلاً آواز اور پانی پر بننے والی لہروں کی طرح ہیں۔حتی ٰ کہ اٹھارویں صدی میں ینگ نے مشہور دو شگافی تجربے سے یہ ثابت کیا کہ روشنی واقعی موجی خصوصیات رکھتی ہیں ۔ اس کے بعد طبعیات داں طبقہ میں یہی نظریہ مقبول رہا کہ روشنی ایک موج ہے ۔یہاں تک کہ آئن سٹائن نے اپنے مقالے میں روشنی کے زراتی ہیئت کو استعمال کرنے ہوئے فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کی وضاحت  کی۔(کوانٹم فزکس کی بدولت اب ہم جانتے ہیں کہ روشنی اور دوسرے بنیادی ذرات بیک وقت ذاتی اور موجی خصوصیات رکھتے ہیں۔)
اگرچہ یہ آئن سٹائن کا سب سے بہترین تحقیقی کام نہیں تھا مگر اسی کے بدولت 1921 میں آئن سٹائن کو طبیعات کا نوبل انعام ملا۔اسی پیپر نے کوانٹم فزکس کی بنیاد میں مرکزی کردار ادا کیا۔  

مزید پڑھیں: سال 2015کے بہترین سمارٹ فون

2۔براؤنی حرکت کی وضاحت :

دو ماہ بعد آئن سٹائن نے ایک مختلف مگر بنیادی سوال کا جواب دیا۔مئی 1905 میں شائع پیپر میں آئن سٹائن نے براؤنی حرکت کی وضاحت کی۔ تقریباً 1827 میں رابرٹ براؤن نے خوردبین کی مدد سے پانی میں موجود انتہائی باریک  پولن ذرات کا جائزہ لیا تو اس نے دیکھا کہ تمام ذرے انتہائی مسلسل مگر انتہائی بے ہنگم حرکت میں تھے، جس کی اس کے پاس کوئی وضاحت ممکن نہ تھی۔اس حرکت کو براؤنی حرکت کا نام دیا گیا اور تقریباً اگلے 80 برس اس حرکت  کی وجہ ایک راز ہی رہی ۔(جیسا کہ آپ اس تصویر میں ملاحضہ کر سکتے ہیں۔)
دو جہتوں میں براؤنی حرکت
آئن سٹائن کے  براؤنی حرکت کی وضاحت اٹامک /مالیکیولر نظرئیے کی بنیاد پر دی  اور  انتہائی خوبی سے شماریاتی ریاضی کو استمال کرتے ہوئے ثابت کیا کہ پانی میں ذرات کی بے ہنگم حرکت نظر نہ سکنے والے انتہائی چھوٹے اور مسلسل متحرک ذروں یعنی ایٹموں کے ساتھ مسلسل ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔اس پہلے اگرچہ ایٹم کا نظریہ موجود تھا مگرایٹموں کی موجودگی کے حوالے سے مظبوط دلائل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے اہم سائنسداں ایٹموں کو ایک مفروضے سے ذیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔یہ پیپر ایٹمی نظرئیے کے حق میں  انتہائی مظبوط دلیل ثابت ہوا۔
اس کے بعد مئی اورستمبر میں شائع مقالات نے تقریباً دو صدیوں سے رائج نیوٹونی حرکیات(Newtonian Mechanics  ) کی جڑھیں ہلا دیں، اور زماں و مکاں کے بارے میں ہمارے نظریات کو یکسر بدل دیا۔آپ جان چکیں ہو نگے کہ ہم نظریہ اضافیت کی بات کر رہے ہیں،جس کے بارے میں تفصیل آپ آئندہ تحریر میں ملاحضہ کر سکیں گے۔


مزید پڑھیں: وائی فائی سے سو گناہ تیز رفتار لائی فائی ٹیکنالوجی