زیر زمین میٹھا پانی قلت کا شکار

اس وقت دنیا بھر میں زیر زمین پانی کے بہت سے ذخائر موجود ہیں۔ یہ ذخیرے ہمارے لئے ایک پانی کے بینک کا کام کرتے ہیں۔ بارشوں ،ڈیموں اوردریاؤں کے زریعے ان میں پانی جمع ہو سکتا ہے ، اور اسے استعمال کیلئے نکالا جا سکتا ہے۔یہی پانی دنیا کی ایک بڑی آبادی کے پینے ،روزمرہ استعمال اور زراعت کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک نئی تحقیق میں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ :موسمیاتی تبدیلیاں اور حد سے بڑھتا ہوئے ا انسانی استعمال سے نہ صرف زیر زمین ذخائر میں موجود پانی کی مقدار میں انتہائی تیزی سے کم ہو رہی بلکہ بعض ممالک میں کمی کی رفتار خطرناک حد تک ذیادہ ہے۔

کنواں: زیر زمین پانی کو نکالنے کا صدیوں پرانا طریقہ

پانی کی ذخیروں میں کمی میٹھے پانی کی قلت کے بہت سے مسائل کا باعث بنے گی جن میں سرفہرست پینے کے قابل پانی کی قلت ہے کیونکہ یہ ذخیرے دنیا بھر کے 2 ارب سے ذیادہ انسانوں کے پینے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے علاقوں میں زرعی پانی بھی انہی ذخیروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں موجود میٹھے پانی کے 37 بڑھے ذخیروں میں سے 21 پانی کی مقدار مسلسل گھٹ رہی ہے۔
واشنگھٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ماہر آیبات (hydrologist) ساشا رچی ، جو کہ اس تحقیقی مقالے کی شریک لکھاری ہیں کا کہنا ہے کہ "لوگوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ زیر زمین پانی کے یہ ذخیرے پانی کی فراہمی کا بہت قیمتی و اہم زریعہ ہیں جنکو دنیا کے بیشر حصوں میں غیر مناسب طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔"
زیر زمین پانی ایک خاص قسم کی چٹانوں میں جمع ہوتا ہے جو کہ ایقویفائر (aquifer ) کہلاتی ہیں ۔ یہ چٹانیں بارش ، ڈیموں ، دریاؤں اور ندی نالوں سے مٹی میں جذب ہونے والی پانی کو ذخیرہ کر لیتی ہیں ۔ضرورت کے تحت کنویں اور ٹیوب ویل کھود کر انہی چٹانوں سے پانی نکالا جاتا ہے۔
پانی ذخیرہ کرنے والی چٹانوں"ایقوفائز" کی تصویر
جب ذیر زمین پانی میں کمی ہو تو کنویں یا ٹیوب ویل میں پانی کی سطح گرنے لگتی ہے۔ اس لئے کسی علاقے میں کنوؤں اور ٹیوب ویلز کی گہرائی میں کمی بیشی سے زیر زمین پانی میں تبدیلی کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہم اس طرح سے عالمی پیمانے پر پانی کے ذخائر کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار نہیں حاصل کر سکتے۔
یوں عالمی طور ہر زیر زمین پانی کے ذخائر کو جانچنے کیلئے ساشا رچی اور ان کی ٹیم نے مصنوعی سیاروں گریس " GRACE " کو استعال کرنا پڑھا۔گریس مشن میں دو مصنوعی سیاروں کو موسمیاتی اور زمین کی کشش ثقل میں ہونے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیے: کینڈی کرش اس قدر لت لگا دینے والی کیوں ہے؟

کیونکہ مختلف خطوں میں زمین کی بیرونی سطح کی کثافت میں ہونے والی تبدیلی ، اس مقام پر کشش ثقل میں بھی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔اور زمین کی بیرونی سطح کی کثافت میں تبدیلی کی ایک وجہ زیر زمین ذخائر میں پانی کا بڑھنا اور کم ہونا بھی ہے۔ اسی لئے پانی کے ان ذخیروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے گریس سٹیلائٹ کشش ثقل میں ہونے والی تبدیلی سے پانی کی مقدار کی پیمائش کر لیتے ہیں۔
تحقیق کاروں نے 2003سے 2013 تک کے عرصے میں ان خطوں میں ثقل میں تبدیلیوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ا س عشرے میں آٹھ ذخائر پانی کے بہت بڑھے حجم سے محروم ہوئے۔ماہرین نے ان کی درجہ بندی "انتہائی دباؤ" (overstressed)کے شکار ذخائر کے طور پر کی ہے۔ کیونکہ ان ذخائر میں سے نکالے جانے والے پانی کی مقدار ، قدرتی طور پر جمع ہونے والی پانی کی مقدار سے انتہائی ذیادہ ہے۔ان خطوں میں جنوبی امریکا، مشرق وسطیٰ ، شمال مغربی ہندوستان اور پاکستان شامل ہیں۔
پانی کی قلت کا شکار زیر زمین ذخائر انتہائی گنجان آباد شہروں کے قریب ہیں، یا وہ بہت زیادہ زرعی علاقے یا پھر بارانی علاقوں میں موجود ہیں۔ یوں امریکی ریاست کیلفورنیا، مشرق وسطی ٰ اورپاکستان میں زیر زمین پانی کی قلت کی معقول وجہ سامنے آتی ہے۔ کیونکہ ان جگہوں پر زیر زمین پانی زراعت اور انسانی آبادی دونوں کے استعمال میں ہے۔
امریکی ماہر آبیات گورڈن گرانٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ گریس کے ڈیٹا سے ہمیں یہ علم ضرور ہوا ہے کہ عالمی پیمانے پر زیر زمیں پانی کا لیول کس طرح تبدیل ہو رہا ہے۔ مگر اس ڈیٹا سے ہم یہ نہیں معلوم کر سکتے کہ ان زیر زمیں ذخائر میں پانی کی کتنی مقدار باقی ہے۔لیکن ماہر آبیات اس بات کا حساب ضرور رکھ سکتے ہیں کہ سالانہ ان ذخیروں میں کتنا پانی جمع اور خرچ ہو رہا ہے۔