سمارٹ فون:ماضی ،حال اور مستقبل

  اسمارٹ فون،کچھ ابتدائی باتیں:قسط1


یادش بخیر اگر ہم آج سے عشرہ ڈیڑھ سال پہلے کا تصور کریں تو اس وقت ملک عزیزمیں موبائل فون کو ایک لگژری اور صرف امراء کی عیاشی کی چیز سمجھا جاتا تھا ۔پھربہت سی خیر ملکی کمپنیاں موبائل سیکٹر میں سرمایہ کاری کیلئے آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون لگژری کی بجائے عام ضرورت بن گیا۔اب ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں65 تا 70 فیصد آبادی کے پاس ایک عدد  فون موجود ہے۔
بالکل یہی صورتحال آجکل سمارٹ فون یعنی ذہین فون کے حوالے سے درپیش ہے۔جو کہ ایک لگژری اور سٹیٹس سمبل سے بڑھ کر اب متوسط طبقے میں بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے،اور 3Gموبائل نیٹورک کے نیلامی اورشروع ہونے  (جس کی نیلامی اگلے برس متوقع ہے) کے بعد یہ بھی ہر خاص و عام کی ضرورت بن جائے  ہو گا اور تب سہی معنوں میں ایک ہمارے ملک مین ایک نئی انفارمیشن ایج کی شرعات ہونگی(کیونکہ موبائل سے وہ صارفین بھی انٹرنیٹ سے منسلک ہو سکیں گے جو بہتر طور پر کمپیوٹر استعمال نہیں کر سکتے)۔
اسمارٹ فون:
اگر ہم ذہین فون کی بات کریں تو بنیادی طور پر ایک موبائل  فون ہی ہوتا ہےجو کہ ایک موبائل آپریٹنگ سسٹم سے لیس،جدیداور ذیادہ کمپیوٹنگ صلاحیت کے ساتھ ساتھ بیک وقت مختلف الاقسام موبائل نیٹ ورک کے(مثلاً 2G،3Gوغیرہ)ساتھ منسلک ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

فیچر فون :نوکیا1100دنیا میں سب سے ذیادہ فروخت والاموبائل ہے
ابتداء میں عام فیچر موبائل فون میں ذاتی ڈیجیٹل معاون(Personal Digital Assistant: PDA)کی خصوصیات کو یکجا کیا گیا۔اس کے بعد پورٹیبل میڈیا پلیئر کی خوبی کا اضافہ ہوا۔ بعد ازاں رفتہ فتہ کم صلاحیت کے ڈیجیٹل کیمرہ ، جیبی وڈیو ریکارڈر اور حتی' کہ دستی جی پی ایس نیویگٹر جیسی اضافی صلاحیتوں کو جمع کر کےایک کثیر المقاصد آلے یعنی ذہین فون کا نام دیا گیا۔جس میں نت نئے سینسرز کا اضافہ آئے دن جاری ہے۔


آجکل کے ذہین فونوں میں ہائی ریزولیشن سکرین، ڈیٹا کی تیز رفتار منتقلی کیلئے نئی جنریشن کے3Gو4G موبائل نیٹورک کے ساتھ  ساتھ  وائی فائی کے ذریعے انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کی صلاحیت اور مکمل ویب براؤزر سےبھی لیس ہوتے ہیں،جو کہ موبائل کیلئے تیار ویب صفحات کے علاوہ  عام ویب پیج بھی دکھا سکتے ہیں۔براؤزنگ کے علاوہ موبائل سکرین پرآپ HDوڈیو اور آڈیوسے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔موجودہ چند سالوں میں تیز رفتار موبائل نیٹورک اور کثیر تعداد میں ٹھرڈ پارٹی موبائل اطلاقیوں(Apps) کی دستیابی سے ذہین فون کے استعمال میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

فیچر فون اور سمارٹ فون کا فرق:
ذہین فون اور فیچر فون میں فرق بہت مبہم ہے اور ایسی کوئی  واضح و متفقہ  تعریف دستیاب نہیں جس کی بنیاد پر دونوں میں فرق کیا جا سکے۔لیکن ایک بنیادی و اہم فرق یہ ہے کہ: سمارٹ فون میں ٹھرڈ پارٹی اطلاقیوں کی تیاری کیلئے فون کے آپریٹنگ سسٹم اور ہارڈ ویئر  تک آسان  رسائی و ہم آہنگی کیلئے بہتر اور جدید اپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس (API)مہیا کیا جاتا ہے جبکہ فیچر فون عموماً ملکیتی فرم ویئر پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں ٹھرڈ پارٹی ایپ(APP) کو Java MEیا BREWجیسے پلیٹ فارم کے زریعےسپورٹ مہیا کی جاتی ہے۔

جدید تریں سمارٹ فون: ایپل :آئی فون 5S, سیمسنگ :گلیکسی S4،گوگل:نیکسس4
ایک اور پیچیدگی جو فیچر فون اور ذہین فون میں فرق کرنے میں رکاوٹ ہے کہ: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید فیچر فون کی خصوصیات بھی ماضی میں ذہین فون کی  حیثیت سے فروخت کیے گئے موبائل فون سے ذیادہ ہو گئیں ہیں۔اس کے علاوہ موجودہ دور میں کچھ مینوفیکچرر اپنےجدید ذہین فون کیلئےسپرفون یا فیبلٹ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان فون کی کمپیوٹنگ صلاحیت کم درجہ ٹیبلٹ پی سی کے جیسی ہے۔

(اسمارٹ فون سے متعلق  مزید معلومات اگلی تحریر میں ملاحضہ کریں۔) 

کمیت اور وزن:(انفوگرافک)

کمیت اور وزن:(انفوگرافک)

کمیت (Mass)اور وزن(Wieght) کوہم  اگرچہ روزمرہ زندگی میں ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔مگر فزکس میں یہ ایک دوسرے سے بہت مختلف مقداریں ہیں۔ ذیل میں انکا  ایک انفوگراف کےذریعے موازنہ پیش کیا گیا ہے، چونکہ یہ میرا پہلا انفوگراف ہے اس لئے یہ انفوگراف کی بجائےٹیکسو گراف ذیادہ لگ رہا ہے،مگرپھر بھی پیش خدمت ہے۔

(انفوگراف:  انفوگراف کے ذریعے مختلف الاقسام گراف اور تصاویر کے ذریعے معلومات کو کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہوئے قارئین تک پہنچایا جاتا ہے۔)
 


ایٹم کا ابتدائی تصور

ایٹم کا ابتدائی تصور:(قسط    :4)

یونانی فلاسفروں کے نزدیک ایک اور اہم سوال ،مادے کی انتہائی مختصر سطح پر تقسیم درتقسیم سے متعلق تھا۔اگر ایک پتھر کے دو ٹکڑے کیے جائیں یا پھر کوٹ کر پاؤڈر بھی بنا دیا جائے تو ہر ٹکڑا پھر بھی پتھر ہی ہو گا، حتی کہ اسے مزید تقسیم در تقسیم کیا جائے۔کیا مادے کی یہ تقسیم در تقسیم لا محدود حد تک جاری رہے گی؟یا بلاآخر ایک بنیادی ذرے تک پہنچ کر رک جائے گی۔
اس سوال کے جواب میںIonian Leucippus (دورزمانہ450قبل مسیح) نے سب سے پہلے قدرتی طور پہ ذہن میں آنے والا خیال بیان کیا  کہ مادے کا ہر ٹکڑا چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اسے مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔حتٰی کہ ایک ایسے ٹکڑے تک پہنچ جائیں جو کہ اتنا باریک ہو گا کہ اسے مزید چھوٹے ٹکڑے میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
دیموکیریٹس (Democitus)نے انہی خطوط پر سوچنا جاری رکھا،اور اس نے آخری ناقابل ِتقسیم زرے کو اٹاموس(atomos)کا نام دیا ،جسکا مطلب ناقابل تقسیم کے ہیں اور اسی سے ہی آج کا لفظ ایٹم اخذ کیا گیا ہے۔یہ اعتقاد کہ مادہ ایسےانتہائی باریک ذرات سے مل کر بنا ہے ،جو کہ مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا،اٹامزم (Atomism)کہلاتا ہے۔
ایٹم کا بنیادی خاکہ
اس  نظریہ میں ڈیموکریٹس نے کہا کہ ہر عنصر کے ایٹم مختلف سائز اور ساخت رکھتے ہیں؛اسی انفرادیت کے باعث مختلف عناصر  ایک دوسرے سے  مختلف خصوصیات رکھتے ہیں۔مختلف طرح کے اشیاء جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں یا ہمارے زیر استعمال ہیں مختلف عناصر کے ایٹموں کا آمیزہ ہوتی ہیں،اوراس آمیزے کے اجزائے ترکیبی بدل کر کسی ایک چیز کودوسری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ سب تصورات آج ہمیں بہت جدید محسوس ہوتے ہیں۔دیموکیرٹس کے پاس اپنے نظریات کی تائید کیلئے کوئی بھی تجربہ نہیں موجود تھا۔(یونانی فلسفی تجربات کی بجائے ،نتائج کو پہلے سےبیان شدہ اصولوں سے اخذ کیا کرتے تھے۔)
لیکن دوسرے فلسفیوں اور خاص کر ارسطو کویہ نظریہ کہ: مادہ کا ایک ایسا ٹکڑا جو کہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نا کیا جاسکے،خلاف ِقیاس لگا کہ انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔اس لئے ایٹمی تصور دیمرقس کی دو ہزار سال بعد تک غیر معروف رہا اور اس پر کبھی کبھار ہی بحث کی گئی۔
مگر یونانی فلسفی ایپقرس نے اپنے ایٹمی تصور کو اپنے افکار اور تعلیمات کا حصہ بنایا، آئندہ دور میں بہت سے اس کے معتقدین نے اس نظریئے کو زندہ رکھا۔انہی میں سے ایک معتقدرومی شاعر لوکرٹس قارس بھی شامل  تھا  جس نے 'اشیاء کی حقیقت 'نامی ایک منطوم نظم لکھی ،جس میں شاعری کے ذریعے ایٹم کے تصور کو سکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس لیے اگرچہ اہل یونان تو نے دیمرقس اور ایپیقرس کے فلسفیانہ اقوال ہی یاد رکھے ،لوکرٹس کی نظم ادب میں زندہ رہی اور اپنے ساتھ ایٹم کے  تصور کو اپنے ساتھ جدید دور تک لے آئی۔جہاں اسی تصور کو نئے سائنسی طریقہ کارکے ذریعے متعارف کرایاگیاپھر اس نظریہ کو آخرکافتح نصیب ہوئی، اور آج ہم بہتر طور پر ایٹم سے واقف ہیں، جن کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔

عناصر اربعہ ہوا، آگ ، مٹی اور پانی

600 قبل مسیح سے دانشور اور فطین یونانی فلسفیوں نے اپنی ذہانت نظام ِکائنات اور اس کو بنانے والے مختلف مادوں کی ساخت کو جاننے میں صرف کی۔یونانی فلسفی نئی ٹیکنالوجیاور عملی ترقی کی نسبت 'کیا اور کیوں؟' کے سوال میں گرے رہے۔مختصراً یہی وہ پہلی قوم تھی جنھوں نے'کیمیائی نظریہ'  پر بحث کا آغاز کیا۔

ایسی نظریا ت کی ابتداء تھیلس (Thales)سے ہوئی،اگر چہ اس سے پہلے بھی بہت سے یونانی گزر چکے تھے اور یونانیوں سے پہلے اور اقوام بھی،یقیناً انھوں نے بھی مادے کی تبدیلی کے متعلق غور و فکر کے بعد نتائج اخذ کیے ہونگے ،مگر بد قسمتی تاریخ کے اوراق سےان کےکام کا کوئی بھی حصہ ہم تک نہیں پہنچ سکا ہے۔

تھیلس ایک یونانی فلسفی تھا ،جسکے ذہن میں غالباً یہ سوال پیدا ہو گا کہ:اگر ایک چیز کسی دوسری چیز میں تبدیل ہو سکتی ہے ،مثلاًایک نیلگوں چٹان کو تانبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے،تو پھر اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟کیا وہ درحقیقت ایک چٹان ہے یا تانبہ؟یا یہ دونوں بلکل کوئی اور چیز نہ ہوں؟اگر کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز میں ڈھل سکتی ہے(شاید ایک سے زیادہ مختلف مراحل میں)تو پھر کیوں نہ یہ سبھی اشیاء ایک اصل (عنصر)شے1کی مختلف صورتگری نہ ہوں؟

تھیلس کے نزدیک آخری سوال کا جواب اثبات میں تھا ،کیونکہ ہماری کائنات میں ایک بنیادی ہم آہنگی اور نظم وضبط پایا جاتاہے۔یوں باقی یہی رہ جاتا ہے کہ تلاش کیا جائے کہ وہ بنیادی مادہ،شے یا عنصر کیا ہو سکتا ہے۔

تھیلس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بنیادی مادہ پانی ہو سکتا ہے،کیونکہ یہ زمین میں سب سے زیادہ مقدار میں نظر آتا ہے۔اس نے خشکی کے انتہائی بڑے حصے کو گھیرا ہوا ہے؛یہ کرہ ہوائی میں بھی بخارات کی شکل میں موجود ہوتا ہے؛یہی ٹھوس زمین میں بھی رس کر نچلی تہوں تک چلا جاتا ہے؛اس کے بغیر زندگی ناممکن ہے۔اسی نے پہلے پہل یہ تصور دیا کہ زمین ایک چپٹے دائرے کی طرح ہے،جسکے اوپر ایک نیم کروی آسمان ہے،جو کہ پانی کے لامحدور ذخیرے پر تیر رہاہے۔

تھیلس کا یہ فیصلہ کہ ہر طرح کا مادہ ایک ہی عنصر سے ملکر بنا ہے،فلسفیوں نے تسلیم کر لیا ۔مگر یہ کہ وہ بنیادی عنصر پانی ہے ،اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔تھیلس کے ایک صدی بعد ہی فلکیاتی مشاہدات سے آہستہ آہستہ یہ اخذ کیا گیا کہ آسمان نیم کروی کی بجائے مکمل کرہ ہے،جبکہ زمین خود بھی ایک کروی جسم ہے جو کہ آسمان کے کھوکھلے کرہ کے مرکز میں معلق ہے۔

لیکن اہل یونان کے نزدیک مکمل خلاء کا تصور نہیں تھا؛ اس لئے ان کے خیال میں زمین و آسمان کے بیچوں بیچ صرف خالی جگہ نہ تھی۔کیونکہ اس دور میں زمین سے بلند ترین جگہ تک جہان بھی انسان پہنچا ہوا موجود تھی اس لیے قرین قیاس محسوس کیا گیا کہ ہوا نے آسمان تازمین تمام جگہ کو ہوا نے گھیرا ہوا ہے۔

اس طرح کی سوچ اور خیالات سے ،ایک یونانی فلسفی ایناگزمینس نے تقریباً 570 قبل مسیح میں یہ کہا کہ ہوا ہی کائنات کی بنیادی یا اصل عنصر ہے ۔اس نے یہ محسوس کیا کہ زمین کے مرکز کے قریب ہوا بہت ذیادہ دباؤ کی بنا پر انتہائی کثیف ہو کر سخت مادوں مثلاً مٹی اور پانی جیسے اشیاءمیں بدل گئی تھی۔ جیسا کہ ذیل کے تصویری خاکے میں دکھایا گیا ہے۔

ارسطو کے عناصر اربعہ اور آسمانی عناصربمع علامات



لیکن دوسری طرف ہراکلیٹس(قریباً 550 قبل مسیح میں) کا خیال اس سے مختلف تھا۔اگر یہ "تغیر"(Change)ہی کائنات کا بنیادی وصف ہے تو وہی چیز کائنات کی اصل عنصر ہونے کے لائق ہے جو سب سے ذیادہ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس کے نزدیک ہمیشہ تغیر و تبدیلی سے گزرنے والا یہ عنصر آگ ہو سکتی تھی۔اور آگ سے ہونے والی تبدیلیاں ہی اٹل اور ہمیشگی ہوتی تھیں2۔

ایناگزمینس کے دور میں فارس نے آیونا کے ساحل کو فتح کر لیا تھا۔جب آیونیوں کی مزاحمت ختم ہوئی تو اہل فارس نے سخت رویہ اپنایا ۔اور یہاں سائنسی سرپرستی کی رویت ختم ہو گئی ۔تاہم مغربی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین اپنے ساتھ یہ روایت بھی دوسرے علاقوں میں لے گئے۔فیثاغورس جو کہ آیونہ کے جزیرے ساموس میں پیدا ہوا تھا ،529 قبل مسیح میں نقل مکانی کرکے جنوبی اٹلی چلا گیا ،جہاں اس کی تعلیمات سے بہت ذیادہ دانشوروں پر اثر انداذ ہوئیں۔

عناصر اربعہ:

اس کے معتقدین میں سب میں سے نمایاں یونانی فلسفی ایپڈکولس (490تا 430 قبل مسیح) سسلی کا رہائشی  ایپڈکولس (490تا 430 قبل مسیح) تھا۔اس نے بھی اپنی توجہ کائنات کے اصل عنصر کی تلاش پر مرکوز رکھی ۔لیکن اصل اور بنیادی عنصر کا چناؤ بہت مشکل معلوم ہوا۔اس لئے اس نے ایک درمیانی راستہ چنا جائے۔

کیا لازم ہے کہکائنات کی اصل صرف ایک واحد عنصر ہی کیوں ہے؟کیوں نہ ان کی تعداد ایک سے ذیادہ ہو۔اس نے کائنات کی اصل اور بنیادی عناصر کو چار قرار دیا۔ان میں ہرات کی "آگ"،اینگزیمس کا عنصر "ہوا"،تھیلس کا عنصر " پانی "اور چوتھا عنصر اس کا اپنا تجویز کردہ عنصر"مٹی" تھا۔ 

چار بنیادی عناصر کا یہ نظریہ عظیم ترین یونانی فلسفی ارسطو (384تا 322 قبل مسیح)نے بھی درست تسلیم کیا تھا۔ارسطو نہ ان عناصر کو صرف مختلف اشیاء کا نام نہیں سمجھا۔بلکہ اس کے نزدیک وہ "شے "جسے ہم پانی کے نام سے جانتے اور چھو کر محسوس کر سکتے ہیں حقیقی "عنصر پانی "کی قریب ترین شکل ہے۔

ارسطو کے نقطہ نظر کے مطابق:ایک عنصر دو مخالف جوڑواں خصوصیات مثلاًگرم اور ٹھنڈا،گیلا اور خشک کا مجموعہ ہوتا ہے۔اس کے مطابق ایک خصوصیت کسی اور طرح سے نہیں مل سکتی تھیں۔اس لئے صرف چار جوڑے رہ گئے ۔گرم اور خشک ،آگ؛گرم اور گیلی ،ہوا؛ٹھنڈی اور خشک ،مٹی اور ٹھنڈا اور گیلا پانی بنتا تھا۔

اس کے علاوہ اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور کہا،ہر عنصر کی جدا گانہ خصوصیات ہیں۔اس وجہ سے مٹی نیچے بیٹھتی ہے اور آگ اوپر اٹھتی ہے۔تاہم ،آسمانی اجسام کی خصوصیات زمینی اجسام سے بہت مختلف تھیں۔اوپر یا نیچے حرکت کرنے کے بجائے وہ زمین کے گرد دائروں میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اس لئے ارسطو نے یہ کہا کہ آسمانی اجسام ایک پانچویں عنصر "ایتھر"سے بنے ہیں(یونانی میں ایتھر کا مطلب چمکنا ہے ،یہ نام آسمانی اجسام کے روشنی کی وجہ سے دیا گیا)۔علاوہ ازیں آسمانی اجسام میں کوئی تبدیلی نہیں آتی،ارسطو نے کہا کہ ایتھر مکمل،خالص،بے عیب اور زمین پر موجود چار ناخالص عناصر سے بہت مختلف ہے۔

چاربنیادی عناصر کا یہ نظریہ دو ہزار سال تک اہل علم میں رائج رہا۔آج اگرچہ سائنسی حلقوں میں سے ختم، اور غلط قرار دیا جا چکا ہے۔پھر بھی ہمارے ہاں علم جعفر اور پر اسرار علوم کے ماہرین میں اسی طرح زندہ ہے جیسے دوہزار سال پہلے تھا۔